حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
پتھر پر کھینچی گئی یا سونے کی قیمت ہے؟ یہ سونے کی قیمت تھی، لکیروں کی نہیں تھی۔ وہ تو علامات تھیں ، جن سے پہچانا گیا کہ سونا کھرا ہے۔ اسی طرح آخرت کے بازار میں جنت جو ملے گی یہ ایمان کا بدلہ ہوگا، عمل کا نہیں ایمان کا بدلہ ملے گا، ایمان کو پہچاننے کے لئے عمل کو دیکھا جائے گا۔ اگر عمل کا بدلہ ہوتا تو میں نے اور آپ نے پچاس برس مثلاً عمل کیا تو پچاس برس جنت میں رہتے، اس کے بعد کان سے پکڑکے باہر نکال دئیے جاتے کہ جائو باہر، بدلہ ہوگیا۔ جنت میں جو ابدالآباد رہیں گے یہ عمل کا بدلہ نہیں ، اس لئے کہ عمل محدود وقت تک انجام دیا تھا۔ ایمان ایک ایسی چیز ہے جوعمر بھر قائم رہے گا اور جب آدمی مرتا ہے تو عزم لے کے جاتا ہے کہ اگر ایک کروڑ برس بھی زندہ رہوں گا، تب بھی اس ایمان کو نہیں چھوڑوں گا، تو ایماندار ہی ہوتا ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ چوں کہ ابدی چیز ہے، اس لئے بدلہ بھی ابدی ملا، عمل ابدی چیز نہیں ہے، اس لئے عمل کا بدلہ نہیں ہوتا، اس کو بطور علامت دیکھتے ہیں ۔ ظاہر میں بے شک عمل سے جنت ملی، مگر ایمان نہ ہو، کیا پھر بھی جنت مل جائے گی؟ نہیں ملتی۔ معلوم ہوا کہ عمل سے نہیں ملتی، ایمان سے ملتی ہے۔ ایمان ہو، تبھی عمل بھی معتبر ہوتا ہے اور ایمان کی پرکھ عمل سے ہی ہوتی ہے۔ اس واسطے میں عرض کر رہاہوں کہ بلاشبہ فضل سے نجات ہوگی لیکن عمل کرنا اس کی علامت ہے، اس لئے عمل کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔(۶۶)اختلاف مذہب کے اسباب یہ تو طے ہے کہ جملہ الہامی مذاہب میں مذہب اسلام آخری اور دائمی مذہب ہے، دیگر مذاہب ہنگامی اور غیردائمی تھے، اتنی سی بات سمجھ لی جائے تو بات ختم ہوجاتی ہے، اسلام اور دیگر الہامی مذاہب میں اصولاً کوئی ٹکرائو نہیں رہتا ہے مگر اہل مذاہب اصول نے شرع کے بجائے جب عقلیں لڑانی شروع کیں تو اختلافات کی نئی نئی عمارتیں کھڑی ہوگئیں ۔ اس سلسلہ میں حکیم الاسلامؒ کی یہ وضاحت ملاحظہ فرمائیے: ’’اور ابتداء میں سارے انسان ایک ہی دین پر تھے، لیکن جوں جوں لوگوں نے اپنی عقلیں چلائیں تو دین کے اندر فتنے پیدا ہوتے گئے اگر محض اتباع کرتے کہ جو اللہ کے رسول نے لا کر دے دیا اس پر آنکھ بند کرکے چلتے، کوئی نزاع نہ ہوتا۔ نزاع جب ہوتا ہے جب اوپر سے آئی ہوئی چیزوں میں آدمی عقلیں لڑائیں اور عقلی ڈھکوسلوں سے عقیدے بنانا شروع کرے، یہیں سے آدمی کے اندر خلل پیدا ہونا شروع ہوتا ہے۔ اس طرح کبھی انتہائی محبت سے عقیدہ بگڑتا ہے کہ کسی ذات سے انتہائی محبت اور عقیدت ہے اس کو اتنی بڑائی دی کہ اس کو خدائی کے درجہ میں پہنچا دیا۔