حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
کے ممتاز لوگوں میں ہونے لگا۔ خط و کتابت اور آمد و رفت کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ جو کچھ ادھر سے ہدایتیں ہوتی تھیں ۔ ان پر آپ پورا عمل فرماتے۔ آپ کا ہی بیان ہے کہ ایک دن حضرت تھانوی قدس سرہٗ کا ایک گرامی نامہ ملا، اس میں آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ: ’’بے ساختہ میرے دل پر یہ وارد ہوا ہے کہ میں تجھے خلافت دوں اس لیے میں تم کو خلافت دیتا ہوں ۔ جو کوئی بہ نیت اصلاح و تربیت آئے اسے توبہ کرادیا کرو اور مشائخ کے معمولات تلقین کر دیا کرو۔ اصلاحی باتیں پوچھے بتا دیا کرو اور جو کوئی بیعت ہونا چاہے اسے بیعت کر لیا کرو۔ یہ تمہارے لیے بھی نافع ہوگا اور مستفدین کے لیے بھی‘‘۔بیعت و ارشاد اس اجازت نامہ کے بعد جو کوئی آپ سے بیعت ہونے کی درخواست کرتا آپ قبول فرما لیتے اور اپنے سلسلہ میں بخوشی داخل فرمالیتے۔ آج بھی ملک کا کوئی گوشہ اور حصہ ایسا نہیں ہے جہاں آپ کے متوسلین کی بڑی تعداد نہ ہو۔ بیعت ہونے والوں کی زیادہ تعداد جنوبی ہند میں ہے۔ بمبئی، مدراس، حیدرآباد، بنگلور، میسور اور گجرات کے متعدد شہروں اور قصبات میں آپ سے وابستہ ہونے والے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں حتیٰ کہ یہ سلسلہ غیر ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ سعودی عرب، افریقہ، پاکستان، بنگلہ دیش، انگلستان، سائوتھ افریقہ، سری لنکا، برما اورایران میں بھی بکثرت لوگ داخل سلسلہ ہوئے اور بہت سے لوگوں کو آپ سے اجازت بیعت بھی حاصل ہوئی۔ بہت سے وہ افراد و اشخاص جن کو علماء دیوبند سے دور رکھنے کی ان کے حلقہ کے علماء نے برسہا برس سے سعی کر رکھی تھی۔ آپ کے مواعظ حسنہ سننے کے بعد ایسے تمام افراد خاندان بھی جو دور رہنے کی وجہ سے غلط فہمیوں میں مبتلا رکھے گئے تھے۔ یا مبتلا تھے۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورآپ کے دست حق پر بیعت ہوگئے اور اس طرح ان کے عقائد اور اخلاق و اعمال کی آپ کے ذریعہ اصلاح ہوئی۔حکیم الاسلام ؒکی شادی خانہ آبادی زندگی کے مراحل میں ایک اہم مرحلہ شادی خانہ آبادی بھی ہے۔ آپ کے پدر بزرگوار نے آپ کے درسیات سے فراغت کے بعد آپ کی شادی کی فکر کی، اساتذہ دارالعلوم دیوبند اوردوسرے رشتہ داورں کے مشورہ سے آپ کا رشتہ رامپور منیہاران ضلع سہارنپور میں طے پایا۔