حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
غیبت جس طرح اخلاقی جرأتوں کا خون کرتی ہے اسی طرح بزدلی، کم ہمتی، مداہنت فی الدین اور مصلحت بینی جیسے رذائل کو بھی جنم دیتی ہے۔ حکیم الاسلامؒ کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح دیگر اخلاقِ عالیہ سے نوازا تھا، اسی طرح سے اخلاقی جرأت، صاف گوئی اور بے لاگ گفتگو کے جوہر سے بھی آراستہ کیا تھا۔ غیبت کرنا تو درکنار انہیں غیبت سننا بھی گوارا نہ تھا۔ان کی مجلس میں بیٹھنے والے یا ان کے مزاج سے واقف لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ حضرت حکیم الاسلامؒ اس قسم کے رذائل سے پاک ہیں ۔ اس لئے اولاً تو اس کی نوبت ہی نہ آتی تھی کہ آپ کی مجلس میں غیبت ہو۔ اگر کوئی نووارد یا آپ کے مزاج سے ناواقف ایسی گفتگو کرتا جس میں غیبت کا کوئی پہلو نکلتا تو اس پر سخت ناگواری کا احساس فرماتے اور بروقت تنبیہ بھی۔ یہ تو ممکن نہ تھا کہ کوئی شخص آپ کی مجلس میں غیبت کرے اور حکیم الاسلامؒ خاموشی سے سنتے رہیں ، جیسے آج کے دور میں ہماری علمی مجلسیں بھی اس رذیلہ کا شکار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ حضرت مولانا انظر شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں : ’’غیبت کا ان کے یہاں پر دروازہ پوری قوت سے بند تھا، بہت کچھ کسی کے حق میں فرماتے تو یہ ’’بھائی بڑا اچھا آدمی تھا، کاش کہ کسی مفید کام میں لگتا‘‘ یا ’’فلاں صاحب تو اپنے ہی ہیں خدا جانے ان کو کیا ہوگیا‘‘ حالاں کہ کبھی کبھی ان کے متعلقین پر ان کا یہ انداز گراں گذرتا‘‘ وہ مصلحت و ضرورت کا تقاضہ سمجھتے کہ حضرت کچھ تو جواب دیں ، مگر یہاں لاکھوں کروڑوں تیروں کا ایک جواب ’’نشانہ بننا‘‘ تھانہ کہ ’’نشانہ لگانا‘‘ صورتِ حال پر کبھی بہت ہی دل آ زار ہوتے تو فتنہ کے طول و عرض کو واضح کرنے کے لئے فضاء میں اپنی انگشت شہادت گھماتے ہوئے فرماتے کہ ’’بھائی یہ ہر وقت کی ہو ہو ہمیں تو اچھی نہیں لگتی‘‘ ہمارا تو لکھنا پڑھنا ہی ختم ہوگیا۔وقار اس طرح کوٹ کوٹ کر ان کی فطرت میں بھرا پڑا تھا کہ کبھی بے وقاری کا کوئی پرتو ان کی زندگی میں نہ نظر آیا۔ ‘‘مدح سرائی سے اجتناب خود ستائشی اور مدح سرائی بھی ایک بدترین اخلاقی مرض ہے جو بسااوقات متعدی ہوجاتا ہے، جو لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں وہ نہ تو اپنی اصلاح کرسکتے ہیں نہ دوسرے ان سے کوئی مفید چیز سیکھ سکتے ہیں ۔ اس مرض کا علاج تواضع اور للہیت ہی ہے جو ہمارے حلقوں میں بدقسمتی سے اکثرمفقود ہوتی جارہی ہے۔ حکیم الاسلامؒ تواضع اور انکساری کے پیکر تھے، اپنا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ ’’بھائی میں