حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
راہ میں ہزاروں شہید ہوئے، ہزاروں غازی بنے، خود حضرت شیخ الہندؒ پانچ سال تک فرنگی قید میں مالٹا رہے اور رہا ہونے کے بعد ہندوستان پہنچ کر اسی جوش جہاد سے جمعیۃ علماء ہندکی سرپرستی فرمائی اور آپ کے بعد یہ جماعت فضلاء دارالعلوم ہی کے تحت مصروف خدمت رہی۔ ۱۹۲۰ء کی تحریک خلافت اور پھر ۱۹۳۰ء کی تحریک آزادی میں دیوبند کے کتنے ہی علماء نے قائدانہ حصہ لیا، یہ اسی موروثی جذبہ اور عمل کا اثر تھا کہ جب ملک معظم عبدالعزیز آل سعود نے جزیرۂ عرب میں اسلامی حکومت کا پرداز ڈالا تو علماء دیوبند نے سب سے پہلے اس کی حمایت کی اور دیوبند سے متعدد علماء اس کی تائید کے لئے سفر کرکے حجاز پہنچے، اسی طرح ماضی قریب میں جب بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی کی تحریک اٹھی تو صہیونی اور برطانوی سامراج کے خلاف علماء دیوبند ہی کا فتویٰ سب سے پہلے صادر ہوا اور ان مسائل میں دارالعلوم ہی نے تمام مسلمانوں کو اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک محاذ پر جمع کیا اور اجتماعی احتجاج عمل میں آیا۔ اس طرح ہندوستان میں مسلمانوں پر مظالم اور انہیں پسماندہ و متفرق کرنے کے لئے جب نزاعی مسائل کھڑے کئے گئے تو ان کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے بھی فضلاء دیوبند آگے بڑھے، چنانچہ مسلمانوں میں تنظیمی اور طبقاتی اتحاد پیدا کرنے کے لئے آل انڈیا مسلم مشاورت قائم کی گئی جس کی سربراہی مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانیؒ فاضل دیوبند رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند کر رہے ہیں ، اس لئے اگر دارالعلوم کی یہ خواہش ہو کہ عالم اسلام کے رہنما، تعلیمی، علمی، تمدنی اور اجتماعی میدانوں میں علماء دیوبند اورمسلمانانِ ہند سے تعاون کریں تو اس کی ہمہ جہت روشن تاریخ کی روشنی میں یہ خواہش یقینا بجا اور برمحل ہوگی۔ حاصل یہ کہ جب بھی کوئی سیاسی فتنہ اٹھا جس سے مسلمانوں کے اجتماعی یا مذہبی معاملات کے مجروح ہونے کا اندیشہ ہوا تو علماء دیوبند نے بیرون ملک بھی اس کے سد باب میں وہی پامردی دکھلائی جو اندرون ملک ہمیشہ کا طرۂ امتیاز رہی ہے۔جامعہ دارالعلوم اور باطل تحریکات کا مقابلہ انگریزی حکومت کے ایماء سے اس ملک میں بہت سی گمراہ کن سیاسی اورمذہبی تحریکیں اٹھیں جن کے ذریعہ یہاں کے باشندوں اور خصوصیت سے مسلمانوں کو راہِ راست سے ڈگمگانے کی کوششیں کی گئیں مگر دارالعلوم دیوبند اور اس کے فضلاء نے پامردی کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور بحمداللہ ان کوششوں کی بدولت مسلمان انگریزی حکومت کی دسیسہ کاریوں سے بہت حد تک محفوط رہے، بعض باطل پسندانہ تحریکات