حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
اور اس علمی گہوارہ کے لاکھوں لاکھ مستفیدین نہ صرف برِّصغیر میں بلکہ ایشیاء، افریقہ، یورپ اور امریکہ تک میں بیش بہا دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کے بعد حضرت بانیٔ دارالعلوم حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ العزیز اور جملہ بزرگانِ دیوبند کی سب سے بڑی سیاست ہی یہ تھی کہ دینی تعلیم گاہیں قائم کرکے مسلمانوں کو سنبھالا جائے، چنانچہ حضرت الامامؒ بانی دارالعلوم نے دیوبند کے علاوہ بھی جگہ جگہ بنفس نفیس پہنچ کر دینی درسگاہیں قائم کیں اور اپنے متوسلین کو خطوط بھیج بھیج کر بڑی تعداد میں مدارس قائم کرائے، دارالعلوم دیوبند کے منہاج پر اور قاسمی فکر سے وابستہ معاہد و مدارس دینیہ ہی برصغیر میں درحقیقت دین کی بقاء و تحفظ کا ذریعہ ثابت ہوئے اور ہورہے ہیں ، اس طرزِ فکر کی کامیابی پر گزشتہ صدی کے ایک ایک دن اور ایک ایک رات نے مہر تصدیق ثبت کی ہے اور آج بحمداللہ ایشیاء، افریقہ اور یورپ میں دیوبند مکتب فکر کے ہزاروں مدارس موجود ہیں جن میں یہی علماء دیوبند علمی، تعلیمی، تبلیغی اور تصنیفی خدمات انجام دے رہے ہیں کہ تعلیم و تربیت کے بغیر تحفظ دین اور اتباعِ سنتِ نبوی کے راستے پر مسلمانوں کو چلانے اور قائم رکھنے کی اور کوئی صورت نہیں ، نبی کریم Bنے اپنی بعثت کا بنیادی مقصد تعلیم اور تربیت اخلاق ہی ظاہر فرمایا ہے۔ انما بعثت معلما اور بعثت لاتمم مکارم الاخلاق۔ او کما قال علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ یعنی احکام کا تعلق تعلیم سے ہے جو حدیث اوّل کا مفاد ہے اور احکام کے مطابق زندگی گزارنے کا تعلق تربیت اور تزکیۂ اخلاق سے ہے جو دوسری حدیث کا مفاد ہے، اس لئے علمائے دارالعلوم نے انہی دونوں چیزوں کو اپنی زندگی کا بنیادی مقصد ٹھہرایا اور کامیابی کے ساتھ یہ منازل طے کیں ۔ ترکت فیکم الدین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللّٰہ و سنۃ رسولہ۔ (ابن ماجہ شریف)دارالعلوم کی تصنیفی خدمات اس مکتب فکر کا دوسرا سلسلہ تصنیف و تالیف کا ہے تو اس سلسلے میں بھی علمائے دیوبند کے قلم حقیقت رقم نے پانچ ہزار سے زائد تصانیف کا عظیم الشان ذخیرہ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی میں جمع کیا جو برّصغیر کے ہر اسلامی مکتب فکر سے بدرجہا زائد اور وقیع ہے۔ تصنیف و تالیف کا سلسلہ آغازِ دارالعلوم ہی سے شروع ہوگیا تھا، خود حجۃ الاسلام حضرت بانیٔ اعظم مولانا محمد قاسم صاحبؒ کی تصانیف ۲۵؍سے زائد ہیں ، جن میں علم کلام، عقائد اور فقہیات وغیرہ کو عقلی اور حسی