حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سپاس نامہ یہ سپاس نامہ ۱۲؍ربیع الاول ۱۳۶۰ھ کو لجنۂ فضلائے دکن کی جانب سے حیدرآباد میں حضرت حکیم الاسلامؒ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ بعزِ نگاہ، رفیع المرتبت، منبع المرتبت، حارسِ مضمار مآثر و فضائل، حارثِ بستاں ، مکارم و جلائل، غارسِ اشجار و حکم، دارس آثار بدعت، حامیٔ دین متین و کتاب مبین، ماحی نقوش الکفر والزندقۃ والشرک المہین، جامع الدرایہ والروایہ، قامع الضلالۃ والغواید، الفاضل اللودعی الیلمعی حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند۔ عزیز القلوب! ہمارے لئے اس مسرت کا اظہار الفاظ میں نہایت دشوار ہے جو ہم آں محترم کے بلدۂ حیدرآباد فرخندہ اساس کے ورودِ سعادت آمود پر محسوس کر رہے ہیں ۔ یہ ایک عجیب حسن اتفاق ہے کہ ہماری اس انجمن لجنۃ الفضلاء کی تجدید عین اُن ایام میں عمل میں آتی ہے جب کہ کرۂ ارض کے اس حصہ کو آں محترم کے اقدامِ میمنت التیام سے اکتساب سعادات کا ندرت مآب موقع میسر آتا ہے اور اس طرح ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ آں محترم سے اجتماعی شکل میں عزتِ تعارف و شرفِ مجالست حاصل کرسکیں ۔ اگر اس امرِ واقعہ کو ہم طائر روضات الجنات قاسم العلوم والخیرات (طاب ثراہ) کے قرۃ العین و سکینۃ القلب اور ثمرۃ الفواد کے ورودِ مسعود کی فرخندہ فرجامی کا ایک پرتوِ لطیف قرار دیں تو غالباً اربابِ نظر کے نزدیک اسے افراطِ حسنِ ظن سے تعبیر نہ کیا جائے گا۔ معارف مآب! آپ کے خاندانی خصائص اور قاسمی افاضات و افادات کا ذکر ان تنگ دامن سطور میں کسی عنوان ممکن نہیں جن کی ایک جیتی جاگتی تصویر (جو یوماً فیوماًاپنی افادتِ ملی کے دامن کو تمام اقطارِ عالم تک وسیع کرتی جارہی ہے اور جس آفتاب معارف کی چشم جہل و الحاد کو خیرہ کردینے والی ضیاء پاشیاں ہندو سندھ سے گزرکر تمام دنیائے اسلام کا اپنی روشنی سے احاطہ کئے ہوئے ہیں ، دارالعلوم دیوبند کی شکل میں موجود ہے، اس مغتنم لیکن بغایت مختصر صحبت میں ہم ان خدمات دارالعلوم کا تذکرہ بھی خارج از حیطۂ قدرت سمجھتے ہیں جو زمامِ اہتمام ہاتھ میں آنے کے بعد سے آں محترم نے شخصاً انجام دی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ دارالعلوم جیسی عظیم الشان درسگاہ کے داخلی نظم و نسق کی ذمہ داریوں سے بہ حسن اسلوب عہدہ برآ ہونا، اس کی توسیع و ارتقاء کے دل پذیر خاکوں میں رنگ بھرنا اور پھر یہاں کی شبانہ روز مصروفیات سے کسی نہ کسی طرح وقت نکا ل کر ہند و بیرون ہند کے دوروں کے ذریعہ سے اربابِ خیرکی توجہ کو دارالعلوم کی طرف منجذب کرکے اُن کی علمی اعانت سے اس کی مالی پوزیشن کو جنس دین و مذہب کی ہیچ مپرزی کے اس پُرآشوب اور معمورِ فتن دور میں