حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
آپ کا مکان اور نشست گاہ کچی مٹی کی بنی ہوئی تھیں ۔ ہر سال برسات کے موقع پر اس کی لپائی پتائی ناگزیر تھی جس میں کافی روپیہ اور وقت خرچ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ احقر نے حضرت ؒسے عرض کیا کہ حضرتؒ جتنا خرچہ سالانہ اس کی لپائی پر کرتے ہیں اگر ایک مرتبہ پختہ انیٹوں سے بنانے میں خرچ کر دیں تو دو تین سال میں خرچ برابر ہو جائے اور ہمیشہ کے لیے اس محنت سے نجات مل جائے۔ یہ سن کر پہلے تو فرمایا’’ ماشاء اللہ بات تو بہت عقل کی کہی ہے ہم بوڑھے ہوگئے ادھر دھیان ہی نہ آیا‘‘ پھر کچھ توقف کے بعد جو حقیقت حال تھی وہ بتائی۔ تب پتہ چلا کہ یہ حضرات کس مقام سے سوچتے ہیں ۔ فرمایا کہ: ’’میرے پڑوس میں سب غریبوں کے مکان کچے ہیں اگر میں اپنا مکان پکا بنوالوں تو غریب پڑوسیوں کو حسرت ہوگی اور اتنی وسعت نہیں کہ سب کے سب مکان پکے بنوائوں ‘‘۔ آپؒ ایک عظیم محدّث فقیہ اور عارف کامل تھے۔ ساری زندگی درس وتدریس اور تبلیغ واصلاح میں گزاری۔ اپنی حیات مبارکہ میں تین حج کیے اور ۱۳۲۰ھ میں علوم عربیہ کی تکمیل سے فارغ ہو کر دارالعلوم دیوبند میں استاذ حدیث مقرر ہوئے۔ تدریس کے ساتھ تصنیف کا بھی مشغلہ رہا۔ فتاویٰ محمدیہ، دست ِ غیب، اذان و اقامت، حیات ِ خضر، فقہ الحدیث، نیک بیبیا ں اور حیات شیخ الہندؒ آپ کے علمی شاہکار ہیں ۔ ۱۳۶۴ھ میں دیوبند میں رحلت فرمائی اور اپنے اکابر کے ساتھ آسودۂ خواب ہوئے۔شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی ؒ شیخ الا دب حضرت مولانا اعزاز علی ؒ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور شیخ الہندؒ کے ممتاز تلامذہ میں سے تھے۔ ۱۳۲۰ھ میں دارالعلوم سے سندِ فراغ حاصل کی اور ۱۳۳۰ھ میں دارالعلوم میں مدرس مقرر ہوئے اور تادمِ آخر ۱۳۷۴ھ تک دارالعلوم ہی میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ تدریسی و علمی خدمات کے ساتھ تصوف وسلوک کے منازل بھی طے کرتے رہے اور قطب الارشاد حضرت گنگوہیؒ سے بیعت کی۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ فرماتے تھے: ’’حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ ہمارے ان اساتذہ میں سے ہیں جن کی تعلیم و تربیت ہماری تعلیم کا اصل قوام تھی۔ دارالعلوم میں درس و تدریس کی والہانہ خدمت آپ کا شب و روز کا محبوب مشغلہ تھا۔ اس کے ساتھ ادب اور فقہ کی بہت سی کتابوں پر حواشی لکھے جو اہل علم میں نہایت مقبول ہوئے‘‘۔ (۲۱)