حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
اور دوسرے ممالک میں علماء و فضلاء سے ملاقات کی اورمسائل علمیہ میں ان سے گفتگو کی۔ لیکن تبحرِ علمی وسعت معلومات اور علوم عقلیہ ونقلیہ کے احاطہ میں حضرت علامہ انورشاہ صاحبؒ کا کوئی نظیر نہیں پایا۔ ‘‘(۱۶) بہر حال آپؒ کی شخصیت ایک جامع شخصیت تھی اور علمی اشغال میں غیر معمولی انہماک اور شغف کے باوجود عمل بالکتاب والسنۃ اور اتباعِ سلف کے اہتمام میں ذرہ بھربھی کوتاہی نہیں ہوتی تھی۔ ملنے والے بہت سی سنتوں کو حضرت شاہ صاحب ؒکے عمل کو دیکھ کر معلوم کر لیا کرتے تھے۔ سنت نبویؐ کے متعلق کھانا اُکڑوں بیٹھ کر کھاتے تھے اور کھانے میں ہمیشہ تین انگلیاں استعمال کرتے اور د ونوں ہاتھ مشغول رکھتے۔ بائیں ہاتھ میں روٹی اور دائیں ہاتھ سے اسے توڑ توڑ کر استعمال کرتے تھے۔ لقمے ہمیشہ چھوٹے چھوٹے استعمال کرتے۔ زہد و تقویٰ حضرت ممدوح کے روشن اور کھلے ہوئے چہرہ پر برستا تھا۔ ایک غیرمسلم شخص نے کسی موقع پرآپ کا سرخ و سفید رنگ، کشادہ پیشانی اور ہنس مکھ چہرہ، نیز چہرہ کی مجموعی عظمت وو جاہت دیکھ کر کہا تھا کہ: ’’اسلام کے حق ہونے کی ایک دلیل یہ نورانی چہرہ ہے۔‘‘ حضرت علامہ کشمیریؒ اپنی جلالت قدر اور رفع منزلت کے باوجود اکابر دیوبند کے متعلق کیا خیال رکھتے تھے اس کو بھی ملاحظہ فرمایئے۔ ایک دفعہ فرمایا ہم یہاں آئے یعنی کشمیر سے ہندوستان تو دین حضرت گنگوہیؒ کے یہاں دیکھا۔ اس کے بعد حضرت شیخ الہندؒ اور حضرت رائپوری کے یہاں دیکھا اور اب جو دیکھنا ہے تو وہ حکیم الامت مولانااشر ف علی تھانویؒ کے یہاں دیکھئے۔(۱۷)حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی ؒ آپؒ دارالعلوم دیوبند کے قدیم ممتاز فضلاء میں بلند مقام پرفائز تھے آپؒ کے والد ماجد حضرت مولانا فضل الرحمن عثمانی ؒ ایک جیّد عالم دین اور صاحب نسبت بزرگ تھے۔ بنائے دارالعلوم دیوبند میں حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہٗ کے رفیق اور معاون تھے۔ تعلیم و تربیت دارالعلوم دیوبند میں حضرت شیخ الہند قدس سرہٗ کے زیر سایہ حاصل کی اور سندِ فراغت حاصل کرنے کے بعد حضرت مولانا محمد احمد قاسمی ؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مقرر ہوئے۔آپ اپنی دانش و بینش اور فہم و فراست میں یگانۂ ہند تسلیم کیے جاتے تھے۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ فرماتے ہیں کہ: