حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
دارالعلوم میں درجہ تجوید کا اجراء حضرت حکیم الاسلامؒ نے اپنی مجلسوں میں بارہا فرمایا ’’جیسا کہ اوپر نقل کیا گیا کہ میری تعلیم سے پہلے دارالعلوم میں تجوید کا درجہ نہیں تھا۔ اس کار خیر کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھ ہی کو بنایا، پھر اس شعبہ نے ترقی کی اور آج ہر طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم از کم ایک سال روزانہ ایک گھنٹہ تجوید میں صرف کرے اور قرآن پاک کو تجوید کے ساتھ پڑھنے کی مشق کرے، بحمد اللہ اس شعبہ سے ہزاروں طلبہ نے استفادہ کیا اور آج بھی یہ شعبہ موجود ہے اور متعدد اساتذہ اس خدمت کے لیے مقرر ہیں اور سینکڑوں طلبہ ہر سال اس شعبہ سے مستفید ہوتے رہتے ہیں اور پھر وہ ملک کے مختلف گوشوں میں پھیل کر تجوید کی خدمت انجام دیتے ہیں ۔‘‘خو ش الحانی حکیم الاسلامؒ کیمعاصرین کا بیان ہے ابتداء عمر سے ہی آپؒ کی آواز بہت بہتر اور بلند تھی اور اول درجہ کے خوش آواز شمار ہوتے تھے اس وقت کے اکابر اور اساتذہ بہت شوق کے ساتھ آپؒ سے قرآن پاک کا رکوع پڑھوا کر سناکرتے تھے۔ خود سرپرست مدرسہ فقیہ الامت حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ (م۱۳۲۳ھ) جب کبھی تشریف لاتے یا آپ گنگوہ جاتے تو حضرت آپ کو بلاتے اور قرآن پڑھواکر سنتے تھے۔ اس وقت آپ کی عمر سات آٹھ برس کی ہوگی۔ سن کر بہت خوش ہوتے اور دعائیں دیتے تھے اور حکیم الاسلامؒ کی وضاحت ہے کہ وہ اکثر حضرت کے سامنے اﷲ نور السَّمٰوٰت والارض کا رکوع پڑھا کرتے تھے۔فارسی میں داخلہ ۱۳۲۷ھ کی روداد میں آپ کا نام درجہ فارسی میں ملتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حفظ ختم کرنے کے معاً بعد آپ کا داخلہ درجہ فارسی میں ہوگیا مگر روداد سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ درجہ فارسی کے سالوں میں بھی تجوید کی کتابیں آپؒ قاری عبدالوحید صاحبؒ سے برابر پڑھتے رہے اور ان کتابوں کا امتحان بھی دیتے رہے۔ گویا آپؒ نے قرآت سبعہ اور عشرہ کی کتابیں بھی باضابطہ پڑھیں ۔ ۱۳۲۷ھ سے لے کر ۱۳۲۹ھ تک مسلسل تین سال آپ نے درجہ فارسی میں رہ کر فارسی کتابیں پڑھیں