حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
حضرت مولانا خلیل احمدصاحب سہارنپوریؒ حضرت اقدس مولانا خلیل احمدصاحب سہارنپوریؒ دارالعلوم دیوبند کے قدیم فضلاء میں سے تھے۔ استاذ الاساتذہ حضرت مولانا مملوک علی صاحبؒ کے نواسے اور حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتویؒ کے بھانجے تھے۔ ۱۲۸۹ھ میں دارالعلوم دیوبند سے تکمیل علوم کے بعد مدرسہ مظاہرالعلوم سہارنپور میں مدرس مقرر ہوئے۔ پھر اپنے ماموں حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کے حکم پر کچھ عرصہ کے لیے بھوپال چلے گئے اور وہیں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر وہیں سے حج کے لیے چلے گئے۔ واپسی پر حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب قدس سرہٗ نے آپ کو بھاولپور بھیج دیا۔ ۱۲۹۷ھ میں آپ نے دوبارہ حج کا ارادہ فرمایا۔ اس موقع پرحضرت گنگوہیؒ نے جن سے آپ کو شرف بیعت حاصل تھا، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒکو لکھا کہ مولوی خلیل احمد حاضر خدمت ہو رہے ہیں آپ ان کی حالت پر مطلع ہوکر مسرور ہوں گے۔ حضرت حاجی صاحبؒ نے جب آپ کی باطنی حالت دیکھی تو بہت خوش ہوئے اورسر سے دستار مبارک اتار کر آپ کے سرپررکھ دی اور اس کے ساتھ اپنی جانب سے تحریری خلافت عطا فرمائی۔ بعد میں اس اجازت نامہ پرحضرت گنگوہیؒ نے بھی دستخط ثبت فرمائے۔ حج سے واپسی کے بعد حضرت گنگوہیؒ نے آپؒ کو مدرسہ مصباح العلوم بریلی کا صدر مدرس مقرر فرمایا۔ ۱۳۰۸ھ میں آپ کو دارالعلوم دیوبند میں مدرس مقرر کیا گیا۔ ۱۳۱۴ھ میں یہاں سے بحیثیت صدر مدرس مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور تشریف لے گئے۔ ۱۳۲۵ھ میں آپؒ کو مظاہر العلوم کا ناظم منتخب کیا گیا اور آخر عمر میں ۱۳۴۴ھ میں بقصد ہجرت مدینہ منورہ میں مقیم ہوگئے۔آپؒ کو اگرچہ تمام علوم پر مکمل عبور اور مہارت تامہ حاصل تھی لیکن حدیث سے بہت زیادہ شغف تھا۔ اسی شغف کے سبب آپؒ نے ابودائود کی شرح فرمائی۔ جو ’’بذل المجہود‘‘ کے نام سے پانچ جلدوں میں طبع ہوئی ہے۔ بذل المجہود علم حدیث میں آپ کا عظیم الشان کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ ؒنے کئی کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ۔ ۱۵؍ربیع الثانی ۱۳۴۶ھ کو بمرض فالج مدینہ منورہ میں رحلت فرمائی اور حضرت عثمان غنی ؓ کے جوار میں آسودۂ خواب ہیں ۔(۸) حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒفرماتے ہیں :