حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
اپنے بزرگوں کی جوتیوں کے صدقے میں اس قابل ہوا، میں دارالعلوم کے طلبہ کا ادنیٰ خادم ہوں ‘‘۔ جس شخص میں اس درجہ کی انکساری اورتواضع ہو اس کے یہاں مدح سرائی کا باب مغلق ہی نہیں مقفل ہوتا ہے۔ اس باب میں بھی حکیم الاسلامؒ اسلاف دیوبند کی بہترین مثال تھے۔ حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحبؒ رقمطراز ہیں : ’’اگر کوئی ان کی تعریف کرتا اپنی فطری انکساری کی بناء پر ایک لطیف ترمیم کے ساتھ تعریفی جملہ کو اس طرح واپس فرما دیتے کہ سننے والے عش عش کرکے رہ جاتے، ایک بار سہارنپور میں تشریف فرما تھے، جسے حضرت کی تشریف آوری کی اطلاع ملی تو ایک شخص دوڑتا ہوا پہنچا، نشست گاہ بھرچکی تھی اور سامنے بھی آدمی کھڑے تھے، اتنے میں یوپی کے وزیر کابینہ یش پال صاحب پہنچ گئے، انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر مجمع کی کثرت پر عرض کیا کہ ’’حضرت جہاں شہد ہوتا ہے وہیں مکھیاں پہنچ جاتی ہیں ‘‘ برجستہ فرمایا کہ ’’بھائی شہد کو بھی تو مکھیاں بناتی ہیں ‘‘وزیر موصوف اس برجستگی اور بذلہ سنجی پر انگشت بدنداں رہ گئے۔‘‘عفو و درگزر حکیم الاسلامؒ کے عفو و درگزر کی سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی مگر قضیہ دارالعلوم میں اکثر ایسے منظر دیکھنے میں آئے جن کی مثال دوسری جگہ بہت کم ملتی ہے۔ ایک معاصر بزرگ نے خط لکھ کر معافی مانگی تو نہ صرف معاف کیا بلکہ اپنی ندامت و پشیمانی کا اظہار فرمایا۔ حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحبؒ اپنا مشاہدہ بیان فرماتے ہیں : ’’انتقام ان کے مزاج میں ڈھونڈے سے نہ ملتا، ایک صاحب نے مجھ سے خود کہا کہ ’’فلاں صاحب کی وفات کے بعد ہمیں یقین تھا کہ مہتمم صاحبؒ ہمارا تیاپانچہ کریں گے، مگر داد دیجئے اس شخص کے مزاج و اخلاق کی کہ منتقمانہ آنکھ بھی ہماری طرف نہ اٹھائی۔‘‘اعلیٰ ظرفی چھوٹی موٹی باتوں کوایک معمولی انسان بھی نظر انداز کردیتا ہے مگر ایسی باتیں کہ جنہیں سن کر ایک عام آدمی کا پیمانۂ صبر لبریز، خون کی گردش تیز اور جذبات و احساسات کا درجۂ حرارت اپنی آخری حدود کو بھی پار کرنے لگے انہیں وہی لوگ نظر انداز کرسکتے ہیں جن کے حصہ میں صبرو تحمل کے ساتھ اعلیٰ ظرفی کا جوہر بھی آیا ہو۔ حکیم الاسلامؒ کی اخلاقی صفات میں ’’اعلیٰ ظرفی‘‘ کی صفت فطری اور موروثی تھی، اس لئے زندگی کے