حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ہی پہچانتے ہیں کہ یہ کون شخص ہے یعنی اس کی حقیقت کیسی؟ اس کی باتیں کیسی؟ تو پہلا ذریعہ پہچاننے کا صورت ہے تو ذریعۂ تعارف ہے صورت، حقیقت میں جو چیز پہچاننے کی ہے، وہ ہے جو صورت کے اندر ڈھلی ہوتی ہے، اس کا نام سیرت ہے تو صورتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہچاننے کا وسیلہ بنی، دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہئے کہ ولادتِ جسمانی ذریعہ بنی، ولادتِ روحانی پہچاننے کا کہ اس ذات کو ظاہر کیا جائے، اس ذات سے دنیا کے لئے پھر کمالات نمایاں ہوں تاکہ دنیا ان کمالات پر چل کر خود سعادت حاصل کرے‘‘ ۔(۵۴)تعلیمِ جدید حکیم الاسلامؒ اور اسلامیۃ المعرفہ، ایک دل نشیں تشریح کہ تمام علوم کی اساس اور بنیاد اور اسی طرح ان کا منتہی یہ سب کا سب مبنی برتوحید ہو اور خدا کی معرفت کی غرض سے، اس سلسلہ میں ذیل کا اقتباس بڑی اہمیت کا حامل ہے، ملاحظہ فرمائیے: ’’کالج کے اندر جہاں اس کی ضرورت ہے کہ کائناتی اشیاء کو سمجھاجائے، وہیں اس کی بھی ضرورت ہے کہ اس کا ’’آخری نقطہ خدا کی معرفت ہو‘‘ اسلام نے ان چیزوں کی طرف توجہ محض ’’عیش و عشرت‘‘ کرنے کے لئے نہیں دلائی۔ عیش و عشرت کوئی دوامی چیز نہیں ، یہ تو چند روزہ قصہ ہے۔ آدمی دنیا میں آیا ہے مسافر کی طرح سے، اس کو ایک ’’بڑی منزل‘‘ تک جانا ہے۔ اگر وہ ’’اصل منزل‘‘کو گنوا بیٹھا تو اس نے کائنات کی حقیقت کو نہیں سمجھا۔ یہ تو راستہ اور رہ گزر ہے مگر چوں کہ راستے کے نشیب و فراز کا جاننا ضروری ہوتا ہے اس کے بغیر آدمی راستہ پر نہیں چل سکتا اور نہ ہی آدمی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ اس لئے دنیا کے ’’عجائبات‘‘ کا دیکھنا اور سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ وہی تو راستہ ہے جس پر چل کر آدمی اپنے خدا کی معرفت تک پہنچتاہے۔‘‘ (۵۵)فن سیاست بھی حیوانات میں سے ہے حکیمانہ نکتہ آفرینیوں کا ایک حیرت انگیز نمونہ، ملاحظہ کیجئے: ’’پھر اگر یہ کہیں کہ طب نہ سہی فن سیاست سہی، ہم سیاست جانتے ہیں اور اپنی ملّت کا نظم کر سکتے ہیں اور سیاسی نظام قائم کرکے قوم کی منظم خدمت کر سکتے ہیں ۔ اس لئے ہم اس بارے میں جانوروں پر فضیلت رکھتے ہیں تو میرے خیال میں یہ دعویٰ بھی غلط ہے۔ میں کہتا ہوں کہ فن سیاست بھی انسانی خاصہ