حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
گا، میں تجھے نجات کا راستہ بتلائوں گا، تو علم جیسی چیز اگر کوئی سکھلائے تو وہ سب سے بڑا محسن ہے کہ اس نے دنیا اور آخرت کا راستہ کھول دیا ہے۔‘‘ (۶۱) ’’حقیقت یہ ہے کہ : العلم عز لا ذل فیہ یحصل بزل لا عز فیہ یہ امام ابویوسف کا مقولہ ہے کہ علم ایک ایسی عزت ہے جس میں ذلت کا نشان نہیں ، مگر ایسی ذلت سے حاصل ہوتا ہے جس میں عزت کا نشان نہیں ۔ غلامی محض کرنی پڑتی ہے۔ اساتذہ کے آگے جھکنا پڑتا ہے، اڑی کڑی جھیلنی پڑتی ہے، تب جا کر چار حرف آتے ہیں ۔ ابن عباسؓ سے کسی نے پوچھا کہ یہ اتنا بڑا علم آپ کو کیسے حاصل ہوا؟ تو فرمایا: ’’بلسان سئول و قلب عقول‘‘ سوال کرنے والی زبان اور عقل مند قلب کے ذریعہ حاصل ہوا۔ میں نے سوال کرنے میں کبھی عار نہیں کیا۔ اگر مسئلہ معلوم نہیں ہوا اپنے چھوٹوں سے سوال کرلیا۔چنانچہ ایک دفعہ ایک مسئلہ ذہن میں اٹکا، تو حضرت زید بن ثابتؓ، جو کاتب وحی ہیں حضرت ابن عباسؓ کے استاذ ہیں ۔ ضرورت پڑی کہ ان سے تحقیق کی جائے تو بارہ بجے دوپہر کو یہ سوال ذہن میں آیا تو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی دہلیز پر بیٹھ گئے جہاں جلتا ہوا پتھر ہے۔دھوپ پڑ رہی ہے، یہ خیال کیا کہ جب ظہر کی نماز کے لئے نکلیں گے تو سوال کروں گا، اگر مسجد میں پہنچ گئے تو درس شروع ہوجائے گا، سوال کا موقع نہیں رہے گا، تو ساری دوپہر دھو پ میں دہلیز پر بیٹھ کر گزارا۔ جب اچانک زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نکلے فرمایا: اے ابن عم رسول! (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ آپ کہاں بیٹھے ہوئے ہیں ؟ عرض کیا: حضرت ایک مسئلہ اٹک رہا تھا، اس کی تحقیق کرنی ہے۔فرمایا: پھر آجاتے۔ عرض کیا:ـ سوال تو دل میں ابھی کھٹکا تھا، پھر آنے کا کون سا وقت ہے؟ جب سوال ذہن میں آیا تو جب ہی حاضر ہوگیا۔ اس سے شدتِ طلب معلوم ہوئی اور شدتِ طلب کے ساتھ ساتھ کسرِ نفس بھی واضح ہوا کہ علم کے حاصل کرنے میں نہ کسی وقار کا سوال، نہ کسی خودداری کا سوال، غلاموں اور خادموں کی طرح جا کر دہلیز کے اوپر بیٹھ گئے۔ اس طرح سے علم حاصل ہوتا ہے۔ (۶۲)مزاجِ نبوت و ملوکیت میں فرق مزاجِ نبوت اورمزاجِ ملوکیت میں بہت سے فروق ہیں ، مگر سب سے بڑا فرق کیا ہے، ذیل میں اس کا جواب مل جائے گا۔