حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
خانقاہ کے دروازہ پر مولوی شبیر علی صاحبؒ برادر زادہ حضرت تھانویؒ میرے منتظر تھے۔ ان سے مصافحہ ہوا۔ دیوبند سے میرے ہمراہ مفتی محمد شفیع صاحبؒ بھی تھے۔ ہم لوگوں کے پہنچتے ہی بھائی شبیر علی نے فرمایا کہ حضرت (تھانویؒ) نے سلام فرمایا ہے اورتین باتیں کہی ہیں ۔ پہلی بات یہ کہ خانقاہ کے حجرہ نمبر۱۶؍ میں آپ کا قیام ہوگا۔ وہاں سامان پہنچا دیا گیا ہے، دوسری بات یہ کہ اگر کوئی تکلیف و تکلف نہ ہو تو ان دس دنوں میں ایک کلام پاک تراویح میں تین تین پارے یومیہ ہمیں سنادو اور تیسری بات یہ ہے کہ آپ تین دن تک میرے مہمان رہیں گے۔ اس کے بعد آپ اپنے کھانے پینے وغیرہ کا بند و بست خود کریں گے۔ اس تیسری بات سے قدرے گرانی کا میرے دل پر اثر ہوا کہ اتنے قریبی روابط (قرابت داری) بزرگوں سے علاقہ اور خود مجھ پراولاد جیسی شفقت کے ہوتے ہوئے حضرت ؒنے یہ غیریت کی بات کیوں اختیار فرمائی؟نماز تراویح مگر چونکہ حاضری اصلاح کے لیے ہوئی تھی۔ اس لیے سب باتیں بخوشی منظور کر لیں اور حکم کے مطابق نامزد کمرہ میں قیام کیا۔ اس وقت تک میری آواز بہت بلند تھی اور خوش آوازوں میں شمار تھا۔ اس کی شہرت بھی تھی۔ روزانہ تراویح میں تین پارے سنانے لگا تمام مساجد سے بکثرت عوام و خواص ذوق و شوق سے خانقاہ کی مسجد میں قرآن سننے کی غرض سے آنے لگے اور مسجد سے باہر حوض اور مدرسہ کا صحن لوگوں سے بھرا ہوتا تھا۔ جب تین دن پورے ہوگئے۔ تو (حضرت تھانویؒ) نے یاد فرمایا اور بلاکر کہا کہ میں نے میزبانی میں تین دن کی شرط لگائی تھی، وہ ایک ضابطہ اور اصول کی بات تھی۔ تو میری اولاد ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تھانہ بھون آکر تو اپنے کھانے کا بند وبست کرے۔ تیرا کھانا وغیرہ میرے ساتھ ہی ہوگا۔ میں نے دس دن اسی شان سے قیام کیا۔ قرآن شریف پورا ہو گیا اور حضرت نے تعلیم و تربیت شروع فرمادی اور ذکر و شغل کے طریقے بتائے۔ اس کے بعد میرا تعلق حضرت سے مضبوط ہوتا گیا اور آپ کی تعلیم کے مطابق عمل کرتا رہا۔ کئی سال کے بعد میں نے عرض کیا کہ حضرت بیعت بھی فرمالیں ۔ فرمایا ضرورت تو ہے نہیں مگر جب دل کی خواہش ہے تو بہتر ہے اور یہ کہہ کر بیعت بھی فرمالیا۔خرقہ ٔ خلافت شیخِ وقت و ہم مجازِ تھانوی صوفی ٔ حق کیش راہِ حق نما حکیم الامت حضرت مرشد تھانویؒ کی تعلیم رنگ لائی اور تھوڑے ہی د نوں کے بعد آپ کا شمار حضرت والا