حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
تأثر گرامی حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی مدظلہٗ مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کو ہندوستان کے سب سے ممتاز اور عظیم الشان علمی اور دینی ادارے دارالعلوم دیوبند کے اہتمام کی ذمہ داری ایام شباب ہی میں مجلس شوریٰ کی طرف سے عطا کردی گئی تھی، اس وقت ان کی عمر ۲۵-۲۶؍سال کے درمیان تھی، اس لئے کہ آپ کا سنہ ولادت ۱۳۱۵ھ مطابق ۱۸۹۷ء ہے، اس وقت ہندوستان میں انگریزی سامراج کے قدمِ اقتدار پوری طرح جم چکے تھے، اس نے سب سے زیادہ دینی تعلیم کے پہلو کو ناکام بنانے میں اپنا زور صرف کیا اور علوم اسلامیہ کی اہمیت کو کم کرنے اور کتاب و سنت کے علوم کی ہیبت کو خود مسلمانوں کے دلوں سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی، اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے عصری تعلیم کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرنے پر اکتفاء کیا بلکہ دیوبند کی مرکزیت کو ختم کرنے کے لئے عصری تعلیم کا ایک بڑا مرکز جو پہلے انگریزوں کی نگرانی میں علی گڑھ میں قائم ہوچکا تھا، اس کو زیادہ سے زیادہ تقویت پہنچانے کے لئے ہر طرح کے مادی وسائل و اسباب کو فراہم کرنے میں حصہ لیا تاکہ اس کے تعلیمی اور زمینی رقبہ کو وسیع کیا جاسکے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ قوم مسلم کے دینی مزاج کو بدل کر ایسا مزاج پیدا کیا جائے جو دین اسلام سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگے،صورت حال نہایت فکر انگیز تھی اور دینی نشر و اشاعت کا کام متاثر ہورہا تھا، اس خطرے کو علمائے دیوبندنے پوری طرح محسوس کیا اور دارالعلوم کو ایک عظیم اسلامی مرکز اور علوم اسلامیہ کے مضبوط قلعہ کی حیثیت سے تیار کرنے میں وہ پوری طرح مشغول ہوگئے اور انگریزی سامراج کے خلاف ایک ایسا محاذ کھولنے میں کامیاب ہوئے جہاں سے ملک کو اس سامراج کی غلامی سے آزاد کرانے اور امت مسلمہ کے علم و عقیدہ اور ایمان و یقین کی حفاظت کے لئے ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لئے علماء و مجاہدین کی ایک نسل تیار کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی۔ اب دارالعلوم دیوبند ایک طرف علوم اسلامیہ کی نشر و اشاعت، ایمان و عقیدہ کی حفاظت کا ایک عظیم مرکز تھا، تو دوسری طرف انگریزی سامراج کا مقابلہ کرنے اور اس راستہ میں ہر طرح کی قربانی دینے کا