حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
تصنیف و تالیف آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے ’’تصنیف و تالیف‘‘ ایک مشکل فن ہے، بالخصوص دین اور دینیات کے موضوع پر تصنیف و تالیف کا کام انتہائی محنت اور عرق ریزی کا دوسرا نام ہے،جس میں الفاظ کے ساتھ معلومات کا رشتہ اور معلومات کے عقب میں ایک جاندار دماغ، استنباطی ذہن ، عالمانہ نظر، ایک خاص تربیت، مخصوص طرز بیاں ، معیاری اسلوب، واضح عبارات، سنجیدہ تعبیرات اور نفیس استدلالات کا ملکہ، اس رزم گاہ کا وہ اسلحہ ہے جس کے بغیر کسی فتح مندی کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔ زمانہ قدیم میں اپنی معلومات کو ذہنوں میں محفوظ رکھا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں غیرمعمولی قوتِ حافظہ بھی عطا کیا تھا، معیار زندگی سادہ، تکلفات کم، ذہنی قوتیں ، مرغن غذائوں ، مضر دوائوں اور نشہ آور چیزوں کے منفی اثرات سے محفوظ تھیں ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ انساب عرب کے حافظ اور گھوڑوں تک کی کئی کئی نسلوں کے شجرے انہیں ازبر، درباری شعراء میں بعض اس بلاء کے حافظہ رکھتے کہ حریف کا پورا پورا دیوان یاد کرلیتے اور اسے بھرے دربارمیں سنا کر صاحب دیوان کو نہ صرف زچ کردیتے بلکہ انعام بھی پاتے، جس سے عام تاثر یہی قائم ہوتا کہ صاحب دیوان سرقہ کا مرتکب ہے۔ اصل شاعر یہی ہے۔ ابن ہشام کلبی کے بارے میں ہے کہ پورا قرآن کریم تین دن میں حفظ کرلیا تھا۔ ابوالحسن ابناری کو قرآن کریم کی سینکڑوں تفاسیر محفوظ تھیں اور عربی شعراء کے دواوین کے دواوین نوک برزبان، ائمہ حدیث میں امام بخاری کا حافظہ مدہش اور امام ترمذی کی یاد داشت غضب کی۔ ماضی قریب میں حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ کے بے نظیر حافظہ کی روایتوں کی تصدیق کردی۔مرور ایام کے ساتھ ساتھ حافظے کمزوراور یاد داشتیں متاثر ہوتی چلی گئیں ۔خدا کو منظور تھا کہ دین متین کی حفاظت ہر دور میں دستیاب و سائل سے ہو۔