حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
میں اس کا ایک اہم اقتباس ملاحظہ فرمائیے، جس میں آپ نے اسلامی مملکت کے نظام اور دفعات کا نقشہ قرآن کریم سے پیش کیا ہے۔ ’’اس اصول پر ہر چیز کی طرح حکومت کی بھی وہ نوع فطری کہلائے گی جس کی طرف طبیعتوں کی سلامتی خود بخود مائل اور بلا کسی بیرونی دباؤ اور خارجی محرکات کے انسانوں کے ضمیر از خود اس کے شائق ہوں اور وہ حکومت غیر فطری کہلائے گی جو تقاضائے درونی کے بجائے بیرونی دباؤ اور فضائی تحریکوں کے تسلط سے دماغوں پر مستولی کر دی جائے مگر پھر بھی دماغ کے اندرونی دروازے اس پر بند ہوں اور دلوں کا کوئی منفذ بھی اس کو اندر اُتارنے کے لئے کھلا ہوا نہ ہو، یا ہو تو اصلیت سے بیگانگی اور بے خبری کی وجہ سے عارضی طور پر ہو، جوں ہی وہ عوارض زائل ہوں تو وہی فطری حکومت کے قیام کی خواہش اندروں سے خود بخود اُبھر آئے اور اس ٹھونسی ہوئی جھوٹی خواہش کو دھکا دے کر پرے پھینک دے‘‘۔ ظاہر ہے کہ ایسی فطری اور محبوب القلوب حکومت صرف اسی ذات کی ہو سکتی ہے جو خود بذاتہ ٖ سب محبوبوں سے بڑھ کر محبوب اور سارے مطلوبوں سے زیادہ مطلوب ہو اور وہ ذات بجز ذاتِ بابرکات حق تعالیٰ کے دوسری نہیں ہو سکتی، جو محبوبِ مطلق اور مطلوبِ حقیقی ہے۔ اس لئے فطری حکومت بھی جو دلوں کی آرزو اور طبیعتوں کا تقاضا ہو، بجز حکومت ِالٰہی کے دوسری نہیں ہو سکتی۔دستورِ حکومت کے پانچ اساسی ارکان (۱) مصدرِ نظام : یعنی اقتدارِؔ اعلیٰ اور وہ ذاتِ بابرکات خداوندی ہے کہ زمینوں اور آسمانوں میں اُسی سے نظامِ کائنات صادر ہو رہا ہے اور اسی کی یکتائی اور حاکمیت ِمطلقہ کی روح دوڑی ہوئی ہے، اُس کے ہی لئے مثلِ اعلیٰ ہے: وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَ عْلٰی فِی السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ۔(۲) مرکز ِنظام : یعنی میزانِ اعلیٰ اور وہ قانونِ قدرت ہے، جس سے نظام کا شجرہ پھوٹتا ہے اور جس کی طرف ہرنظام رجوع کیے ہوئے ہے۔ گویا اسی میں سے نظامات نکلتے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جاتے ہیں ، جو کل کائنات پر حاوی اور جس کے عدل سے ہر ہر ذرّہ تھما ہوا رہ کر کسی حالت میں بھی اس سے انحراف نہیں کر سکتا۔ اگر کرے تو اسی وقت اس کی قیامت قائم ہو جائے یعنی ہر ذرّہ کی بود و نمود نابودگی وگمشدگی اسی قانونِ عدل کے معیار سے ہے: اَللّٰہُ الَّذِیْ ٓاَنْزَلَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ وَمَایُدْرِیْکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیْبٌ۔