حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
این ایچ جعفری صاحب، ڈپارٹمنٹ، جامعہ ملیہ، دہلی : محبی ومکرمی برادرم اعظم صاحب حضرت قبلہؒ کے انتقال کی خبر اخبار میں دیکھی۔پروردگار ان کے ساتھ بہترین معاملہ کر ے او ر صدیقین اور شہدا کے ساتھ انکو روز حساب اٹھائے ۔ ان کے دنیا سے اٹھ جانے کے ساتھ ایک عظیم روایت ختم ہوئی اور پورا ایک عہد تما م ہوا۔اس وقت جبکہ پوری دنیا ایک بڑے عالم اور عہد ساز شخصیت کے دنیا سے رخصت ہونے کا ماتم کر رہی ہے، میں آپ سے کسی طرح تعزیت کروں ؟ آپ کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا، میرے خیال میں کوئی بھی غم اس سے بڑانہیں ہوسکتا۔ میں اس غم کو اسی حد تک محسوس کر سکتا ہوں ۔ چونکہ میں غم کی اس منزل سے گزر چکا ہوں ۔ جیسے کوئی بہت گھنا اور سایہ دار درخت ایکبارگی ٹوٹ کر گر ے اور ہم اپنے آپ کو دھوپ میں کھڑا پائیں یاجیسے کسی گھرکی چھت گر پڑے اور دیواریں ننگی نظرآئیں لیکن شاید کوئی بھی مثال اس غم کی کیفیت کو بیان نہیں کرسکتی۔ میں نے اپنی زندگی میں اتناخوبصور ت انسان نہیں دیکھا جیسا کہ آپ کے نا مور والد ماجدؒ تھے۔ اس قدر نرم خواوراخلاق کر یمانہ کے پیکر۔ مجھے آپ کے طفیل کئی بار ان کے ساتھ شریک طعام ہونے کا موقعہ ملااو ر انکی مجلس میں بیٹھنے کاشر ف حاصل ہوا۔ لگتا تھا کہ کسی شیشے کے گھر میں بیٹھا ہوں جہاں تیز ہوا کا چلنا بھی گستاخی کے مترادف ہوگا۔ کچھ خنکی اورچاندنی اور شبنم کی ملی جلی کیفیت سی محسوس ہوتی تھی۔ وہ اس عہد کے لئے پیدا نہیں کئے گئے تھے جس آب وگل سے ان کو بنا یا گیا تھا اسکی خوشبو اس دنیا کی نہ تھی۔ جشن صد سالہ کے بعد دارلعلوم میں جو ہوا اس دور کے مزاج کے مطا بق تھا۔ سازش، ڈھونگ، مذہبی جذبات کا استحصال، رعونت اور آخر میں شب خون۔لیکن ان سب چیز وں سے زیادہ افسوسنا ک اور عبرت انگیز اور شرمناک وہ واقعہ تھا جس دن ہندوستا ن کے ائمہ اور مشائخ اور علماء نے لکھنؤ میں بیٹھ کر ایک اٹھاسی سالہ بوڑھے کو مہتمم کے عہدہ سے برطرف کیا۔ پروردگار آپ کو اور مولانا محمد سالم صاحب کو اور مولانا محمد اسلم صاحب کو صبر دے بعدہٗ عائشہ صاحبہ بھی اس سانحہ سے بے انتہاء متأ ثر ہوں گی،۔ ان کو اور احمد فرید سلمہٗ کو بھی اللہ صبر کی تلقین دے۔ ……v……