حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
مجالس بہت لگتا ہے جی صحبت میں اُن کی وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں بزرگوں کی مجلسیں افادیت کی حامل ہوتی ہیں ان سے بڑی بڑی رہنمائیاں ملتی ہیں ، اخلاق و عقیدہ کی اصلاح ہوتی ہے۔حکیم الاسلامؒ کی مجالس جب آپ دیوبند میں موجود ہوتے تو عصر کے بعد بالعموم دولت خانہ ’’طیب منزل‘‘ پر آپ کی مجلس ہوتی، جس میں اساتذہ دارالعلوم ،طلباء اور واردین و صادرین ذوق و شوق سے شریک ہوتے حکیم الاسلامؒ کی مجلس میں اعمالِ صالحہ کی ترغیب اور ترک معاصی کی تحریک پیدا ہوتی، عادتِ مبارکہ یہ تھی کہ جب تک اہل مجلس میں سے کوئی سوال نہ کرتا خاموش رہتے اور جب کوئی سوال کرتا تو قرآن و حدیث سے جواب دیتے، کبھی خود بھی ارشاد فرماتے: مجلس ہر طرح کے سوالات اور شبہات کے حکیمانہ جوابات سے علم و عرفان کا گہوارہ بنی رہتی، ضمن میں بزرگوں کے واقعات کا ذکر بھی ہوتا، تفہیم کے لئے مثالیں نہایت برمحل دی جاتیں ۔ مولانا حبیب اللہ قاسمی مالک ادارہ تصنیفات اولیاء نے عصر بعد کی تقریباً ۳۸؍مجالس کا ایک مجموعہ ’’مجالس حکیم الاسلام‘‘ کے نام سے ۱۴۰۹ھ؍۱۹۸۹ء کے عرصہ میں ۶۷۲؍صفحات پرمشتمل شائع کیا تھا۔ ذیل میں چند اقتباس اسی کتاب سے دئیے جارہے ہیں ۔صبر کی حقیقت اور صابرین کے درجات سوال : شریعت میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی پریشانی یا مصیبت آئے تو اس پر صبر کیا جائے۔ مثلاً اگر کوئی چیز گم ہوجائے تو اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھے لیکن اگر کوئی شخص اس کے باوجود اپنی گم شدہ چیز کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہاہے اور اِدھر اُدھر دوڑ رہاہے تو کیا ایسا شخص بھی صابرین میں شمار کیا جائے گا؟