حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
عالم کہلائے جانے کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ فرق اتنا ہے کہ وحی کے سوا دوسرے وسائل کسبی ہیں ، جنھیں مشق ومحنت اور ریاضت ومجاہدہ سے حاصل کر کے حصولِ علم کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے، لیکن وحی ٔالٰہی نبوت کے بغیر نہیں ہوتی اور نبوت محض ایک موہبت ِ الٰہی ہے جو بہ انتخابِ خداوندی منتخب افرادِ بنی آدم کو دی جاتی ہے، اس لئے وحی بھی ایک موہبہ ٔربانی ہے جو بلا کسب ومجاہدہ محض عطاء ِالٰہی سے مخصوص نفوسِ قدسیہ کو دی جاتی ہے۔ اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ۔ ‘‘(۹۰)ایجاد اور اجتہاد ایجاد اور اجتہاد لفظی اعتبار سے ہم وزن سے ہیں مگر معنوی لحاظ سے دونوں میں فرق ہے۔ ذیل میں اس فرق کو ملاحظہ فرمائیے: ’’ مگر ہاں جس طرح تکوین کے ان منظم اور مرتب مادّوں او ر علوی وسفلی ذخیروں سے بواسطہ فکر وتدبر نئے نئے عجائبات کا انکشاف کیا جاسکتا ہے اور ان کی چھپی ہوئی طاقتوں کا سراغ لگاکر تمدن کے نئے نئے کارنامے دنیا کو دکھائے جاسکتے ہیں جن کی کوئی حد نہیں کہ لا تنقضی غرائبہ اسی طرح تشریح کے منظم احکام ومسائل اور قواعد وکلیات کے مخفی علوم واسرار کا پتہ لگاکر ان سے تدیّن کے نئے نئے فروعی مسائل، لطائف وظرائف اور حقائق ومعارف پیدا کئے جا سکتے ہیں کہ قرآن کی شان بھی لا تنقضی عجائبہ وارد ہوئی ہے۔ اس تکوینی انکشاف کا نام ایجاد ہے اور تشریعی استخراج کانام اجتہاد ہے۔ نہ ایجاد کی کوئی حد ہے نہ اجتہاد کی۔یہ الگ بات ہے کہ جیسے ایجاد ات ہر زمانہ کی ذہنیت اور ضرورت کے مطابق ہوتی ہیں اور فطرۃ ً موجدوں کی طبیعتیں ان ہی ایجادوں کی طرف چلتی ہیں جن کی زمانہ کو ضرورت ہوتی ہے اور جب وہ ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو طبائع کی یہ دوڑ بھی ختم ہو جاتی ہے، آگے صرف ان ایجادات سے فائدہ اٹھانا رہ جاتا ہے۔ ایسے ہی اجتہادات کا رنگ بھی ہر دور کی علمی ذہنیت اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ مجتہدوں کے قلوب فطرۃً چلتے ہی اس استخراج کی طرف ہیں جس کی اس قرن کو ضرورت ہوتی ہے ۔پس تکمیل ضرورت کے بعد اجتہاد کا وہ دور نہیں لوٹتا جو آ چکتا ہے۔اب صرف اس سے نفع اٹھانے کا موقع باقی رہ جاتا ہے‘‘۔(۹۱)امت میں اگر اجتہاد ضروری ہے تو تقلید بھی ضروری ہے ذیل کے اقتباس میں اجتہاد کے ساتھ تقلید کی ضرورت اور تقلید کے ثبوتِ شرعی پر ایک مختصر آیتِ کریمہ سے اتنا زبردست استدلال جو لطیف بھی اور دقیق بھی عام انسان تو کیا اکثر پڑھے لکھے حضرات کا