حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سپاس نامہ یہ سپاس نامہ ۱۴؍جمادی الاولیٰ ۱۳۸۳ھ کو مرکزی جمعیۃ الطلباء دارالعلوم دیوبند کی طرف سے حضرت حکیم الاسلامؒ ؒکی خدمت میں سفر افریقہ و مشرق وسطیٰ سے مراجعت پر پیش کیاگیا۔ سیدنا المحترم! مسلسل تین چار ماہ سے ہم خدام جناب والا جیسی شفیق و عظیم اور ہمہ گیر شخصیت کی دید سے محروم تھے، قدرت نے آپ میں علم و فضل، زہد و تقویٰ، عزم و استقلال،خلوص و محبت، رفق و مروت اور دوسرے اوصاف و کمالات اس فیاضی سے جمع کردئیے ہیں کہ بلاشبہ آپ ہمارے لئے مرجع و مرکز کی حیثیت رکھتے ہیں اور اہم ایک لمحہ کے لئے بھی آپ سے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی جدائی نے ہم میں سے ہر ایک کو بے چین کئے رکھا۔ للہ الحمد کہ حضرت والا اس طویل سفر سے بصحت و سلامتی واپس تشریف لائے۔ اس موقع پر ہم جس قدر بھی مسرت و انبساط محسوس کریں کم ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہر شخص بے حد خوش ہے اور اس کی دلی دعا ہے کہ رب العالمین حضرت اقدس کا سایۂ عاطفت تادیر ہم سب پر قائم رکھے۔ مرکزِ علوم! آپ کی اس طویل مفارقت سے جس طرح ہم سب بے چین اور بسا اوقات محزون و دل گیر رہے یقینا حضرت والا نے بھی اس دوری سے تکلیف محسوس کی ہوگی مگر چوں کہ یہ سفر تبلیغ اسلام اور رشد و ہدایت کے عظیم و اہم مقصد کے لئے اختیار فرمایاگیا تھا، اس لئے دور دراز کے سفر کی صعوبتیں باعثِ طمانینت و سکون تھیں ۔ پیکر خلوص! اگر چہ یہ ادارہ ایک طویل مدت سے اپنے فیوض و برکات سے دنیا کے گوشہ گوشہ کو سیراب کر رہا ہے اور بلاشبہ اس کی علمی و روحانی خدمات نے اس صدی میں دنیا کو جو سہارا دیا ہے وہ بس اُسی کا حصہ ہے مگر پھر بھی ضرورت تھی کہ اس سائنسی اور ترقی یافتہ دنیامیں اس ادارہ کی خدمات کی ایک جیتی جاگتی تصویر چل پھر کر دنیا کو حق و صداقت اور ایمان و ایقان کا پیغام پہنچائے اور اس کی مثالی شخصیت زبانِ حال سے دنیاکو بتلائے کہ یہ عظیم ادارہ کس قسم کے افراد تیار کر رہا ہے۔ہمیں یقین ہے کہ حضرتِ والا کو قریب سے دیکھ کر دنیا نے محسوس کیاہوگا کہ یہ درسگاہ اپنے فرزندوں کو علم و فن اور فضل و کمال کے ساتھ روحانی کمالات، خداترسی، فرض شناسی اور حکمت و دانائی کی دولت سے بھی بہرہ ور کر رہی ہے۔