حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
وحی سے آتا ہے یا وحی میں تدبر کرکے عقل تربیت یافتہ سے پیدا ہوتا ہے۔ جس کا نام اجتہادو استنباط ہے۔ پس عقل موجد معلومات نہیں لیکن موجود معلومات میں تحلیل و ترکیب کا کام انجام دے سکتی ہے۔ اگر اسے آزاد چھوڑ دیا جائے گا تو اس کے دوڑنے کا ایک میدان انکار خدا بھی ہے، انکار رسول بھی ہے، انکار دین بھی ہے مگر کیا اسے اہل ذوق گوارہ کر سکتے ہیں ؟ نہیں ۔ تو اس سے واضح ہے کہ عقل کو آزادی محض دینے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے۔‘‘عبادت عبادت کے عام مفہوم سے سب واقف ہیں ، مگر عبادت کا شرعی اور حقیقی مفہوم کیا ہے؟ ذرا حکیمانہ انداز سے اس کی ایک جھلک دیکھئے: فرمایا : ’’جب نفس انسان کی تخلیق کی غرض و غایت عبادت ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اجزاء انسانی کی تخلیق کی عبادت نہ ہو، پس زبان پیدا کی گئی ذکر کے لئے ضمناً کھانا اور چکھنا بھی ہے۔ انگلیوں کے پوروے پید اکئے گئے، عقد انامل کے لئے ضمناً گرفت بھی ہے، ہاتھ پیدا کئے گئے مجاہدہ کے لئے پیر پیدا کئے گئے، مشی بالذکر کے لئے ضمناً مشی بالدنیا بھی ہے، آنکھ پیدا کی گئی، رویت جمال و آثار جمال کے لئے نہ کہ تفریح نفس کے لئے، حواس پیدا کئے گئے محسوسات سے مغیبات کی طرف جانے کے لئے، عقل پیدا کی گئی اثبات حقائق الٰہیہ کے لئے کہ اس کا ذکر بھی ہے، قلب پیدا کیا گیا مشاہدۂ احوال کے لئے اور تبسیط اخلاق کے لئے، قوائے غضبیہ پیدا کئے گئے اقہار اعداء اللہ کے لئے، قوی ملکیہ پیدا کئے گئے تقرب کے لئے، معدہ پیدا کیا گیا تقوّی علی العبادت کے لئے، دماغ پیدا کیا گیا تفکر آخرت کے لئے اور روح تو آئی ہی تھی اس شرط پر کہ اسے ذکر کے مواقع دئیے جائیں تو اس کی وجہ تخلیق ما سوائے ذکر اور کچھ ہے ہی نہیں ۔ رہا عالم آفاق تو وہ مجموعہ وسائل زندگی ہے نہ وہ موضوع زندگی ہے نہ مقصد زندگی۔ اس لئے اس کے تو ہر جزء کو ہی وسیلۂ ذکر و عبادت بنایا جائے گا۔ مثلاً کھانا،پینا، پہننا نہ خود عبادت نہ مقصد بلکہ بعض عبادتیں بنتی ہیں کہ یہ کھانا، پینا، پہننا چھڑا دیا جائے جیسے روزہ کہ ہے ہی ترک اکل ومشروب و جماع اور جیسے حج کہ ہے ہی ترک الالتذاذ بالنساء وباللباس وبالمکان و بجمیع وسائل دنیا کہ ان کی تقلیل مقصود ہے جو قدرتاً بھی ہوجاتی ہے۔ معرفت اشیاء کیوں ہے تاکہ اس کے ذریعہ معرفت خالق ہو، اس لئے تکوینیات پر رجوع الی اللہ رکھا گیا ہے، جیسے لیل و نہار کا انقلاب طلوع و غروب کا انقلاب، نوم و یقظہ کا انقلاب، صحت و مرض کا انقلاب، نقل و حرکت کا انقلاب۔‘‘