حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ذہن بھی جلدی سے اس جانب منتقل نہیں ہوتا۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’بہرحال جب یہ واضح ہو گیا کہ دین میں نص نہ ہونے یا متعین الوجہ نہ ہونے یا غیر معلول نہ ہونے کی صورت میں اجتہاد وقیاس جائز ہے اور اس کے لئے افراد من اللہ منتخب اور مخصوص ہوتے ہیں ،ہر ایک اس کا اہل نہیں اور وہ بتصدیق پیغمبر حجت ِ شرعیہ ہے تو ظاہر ہے کہ اہل اجتہاد یعنی غیر مجتہد کے لئے بجز اس کے چارۂ کار ہی کیا ہے کہ اس اجتہاد کی متابعت اور پیروی کرے اور جب خود علم نہیں رکھتا تو علم والے کی اتباع کرے، خود ان مخفی دلائل اور علل تک نہیں پہنچ سکتا تو دانایانِ اسرارو علل کے سامنے جھک جائے۔کیونکہ مرتبے علم کے دو ہی ہیں یا خود سمجھنا یا فہمیدہ لوگوں کی اطاعت کرنا۔ چنانچہ یہی دو مرتبے بلا کسی واسطے کے قرآن نے ہدایت کے رکھے ہیں ،قیامت کے دن کفار اسی پر افسوس کریں گے کہ ہم نے دین کو نہ خود اپنی عقل سے سمجھا اور نہ عقل والوں کی سنی۔ وَقَالُوْا لَوْکُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَاکُنَّافِیْ ٓاَصْحَابِ السَّعِیْرِo ترجمہ : اور کہیں گے کفار اے کاش! ہم سنتے یا عقل سے سمجھتے تو ہم دوزخیوں میں نہ ہوتے‘‘۔(۹۲)مسئلۂ کفاء ت کا ماخذ کفاء ت یا کفو ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں عام لوگ نہیں پڑھے بھی لکھے بھی الجھے پھرتے ہیں ۔ فقہاء نے بھی اس پر خاصی بحث کی ہے کہ کفو برادری کا نام ہے یا برابری کا؟ حدیث میں فاظفر بذات الدین کا لفظ آیا ہے، جس سے معلوم ہوتاہے کہ دین داری میں کفو مقصود ہے۔ اس اہم مسئلہ کو ذرا حکیم الاسلامؒ کی زبان سے بھی سنئے: ’’بہر حال یہ تو واضح ہوگیا کہ نسب کی کرامت نہ دنیامیں فخر وتعلّی کے لئے ہے نہ آخرت میں مدارِ نجات سمجھنے کے لئے، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جب کسی شخص کو کوئی خلقی کرامت دیدی جائے تو ان احاد افراد امت کو چھوڑ کر جن میں نفس کا کوئی ادنیٰ شائبہ بھی باقی نہ رہا ہو، عام طبائع میں ایسے فضائل سے گونہ وقار وخودداری کا مضمون پھر بھی باقی رہتا ہے جو یقینا تکبر نہیں ہے بلکہ ایک غیر اختیاری طبعی جذبہ ہے جو محض انعامِ خداوندی کی قدرومنزلت سے قلوب میں برپا ہوتا ہے۔ پس اگر اسلام کی فطری شریعت طبعی جذبات کو پامال کرنے کے بجائے اعتدال کے ساتھ ان کا احترام کرنا چاہتی ہے تو اس کرامت ِنسب سے پیدا شدہ جذبۂ وقار کا مصرف اس نے کیا تجویز کیا ہے جس سے یہ