حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
’’ذی شعور مخلوق ملائکہ، جنات، حیوانات، انسان میں سے علم صرف انسان کو بخشا، باقی تین اقسام ملائکہ،جنات اور حیوانات کو یہ علم نصیب نہ ہوا، یا کسی قدر ہوا تو انسان کے طفیل اور اس کے واسطے سے ہوا۔ سو اس میں اصل انسان ہی رہا، جس میں کوئی مخلوق اس کی ہمسری تو بجائے خود ہے شرکت کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتی۔ اس سے واضح ہوا کہ علوم طبعیہ، علوم وہمیہ، علوم خیالیہ، علوم عقلیہ وغیرہ انسان کی خصوصیت نہیں ۔ یہ اور انواع کو بھی میسر ہیں کیوں کہ یہ تمام علوم اپنے اندر اندرونی قویٰ سے ابھرتے ہیں اور وہ قویٰ جانداروں میں کم و بیش رکھے گئے ہیں ۔عقل ہو یا خیال، وہم ہو یا طبیعت ہر ایک کی چیز ہے اس لئے ان کے ذریعہ جو تصور بھی جاندار کو بندھے گا۔ اس سے خود اس کے نفس کی مرضی و نامرضی اور خدا کے مطلوبہ کاموں کا اس سے کوئی تعلق نہیں کیوں کہ خدا کی پسند ناپسند اس کے اندر سے آئے ہوئے علم سے سمجھ آسکتی ہے اور وہی وحی کا علم ہے جو نبوت و رسالت کے ذریعہ آتا ہے اور یہ صرف انسان کو دیا گیا ہے اس سے نمایاں ہوگیا کہ انسان کی خصوصیت علوم طبعیہ، علوم وہمیہ، علوم خیالیہ، علوم شیطانیہ نہیں بلکہ علوم الٰہی ہیں ، علومِ نبوت اور علومِ رسالت ہیں جو انسان کے سوا کسی کو میسر نہیں ۔ اس لئے انسان اگر ساری مخلوقات پر برتری اور فضیلت کا دعویٰ کر سکتا ہے تو وہ علوم شرعیہ ہی کے ذریعہ کرسکتاہے۔‘‘(۵۱)معجزۂ علمی حکیم الاسلامؒ کی زبان میں امتِ مسلمہ کا امتیازی وصف علم ہے: فرمایا : ’’ہر فن کے اندر اہل علم اور اہل کمال پیدا ہوئے اور ان کے ذریعہ علماء کے کمالات ظاہر ہوئے، وہ علوم لاکے رکھے کہ دنیا کی عقلیں عاجز آگئیں ، یہ قرآن ہی کا فیض تو تھا کہ خود بھی معجزہ ہے اور معجزہ گر بھی ہے۔ مسلمانوں میں اس نے اعجازی قوت پیدا کی۔ اس کو چھوڑ کر ہم اعجازی قوت سے محروم ہوں گے۔ امت کی طاقت ختم ہوجائے گی، اس کی طرف لوٹیں گے، تبھی جا کر امت کی شوکت بازیاب ہوگی، ان کی قوت بازیاب ہوگی۔‘‘ (۵۲)رہنمائے انقلاب قرآن کریم نے جو اصلاحی انقلاب برپا کیا ہے اس میں صحابہ کرامؓ کی جماعت سب سے پہلی صف میں ہے، جو اس انقلاب کی مثال بن سکتی ہے۔ فرمایا: ’’صحابہ کرامؓ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے بلاواسطہ قرآن اخذ کیا، دل بدل گئے،