حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
انسان مرکز عالم ہے اس عنوان کی معنویت کو صحیح معنی میں حکیم الاسلامؒ کی زبان ہی سے سمجھا جاسکتا ہے: فرمایا : ’’مرکز صحیح ہوتا ہے تو محیط بھی صحیح رہتا ہے اور وہ بگڑ جاتا ہے تو پورے عالم میں خرابیاں آجاتی ہیں ،تکوین ہو یا تشریع سب کا مدار انسان پر ہے۔ تکوینی طور پر فرمایا گیا ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس اورتشریعی طور پر اگر انسان میں ایمان ہو تو ظلم و جور پر کمر باندھے گا، تب بھی عالم بگڑے گا،آج فساد تکوینیات میں ہے جیسے حدیث میں ہے کہ اگر زکوٰۃ نہ دی جائے تو عالم میں شح اور بخل پھیلے گا۔ اس سے بارشیں بند ہوں گی، ایمان بگڑتا ہے تو اخلاق بگڑتے ہیں ، اخلاق بگڑنے سے اعمال میں تباہی آتی ہے اور برو بحر میں فساد پھیلتا ہے، انسان میں مرکز قلب ہے یہ درست ہے تو سارا انسان درست ہے، ورنہ فاسد ہے اور انسان فاسد ہے تو عالم فاسد ہے۔‘‘مقصدِ زندگی ارشادِ خداوندی: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا الخ۔ کی تشریح حضرت حکیم الاسلامؒ کے دل نشیں انداز اور حکیمانہ اسلوب میں ملاحظہ فرمائیے: فرمایا : ’’دنیا میں ہر حرکت کا کوئی مقصد ہوتا ہے، زندگی بھی ایک مستقل حرکت ہے۔ اپنی حرکت بھی ہے کہ انسان عالم الست سے چلا، عالم رحم میں آیا، پھر عالم دنیامیں آیا، پھر عالم برزخ میں جائے گا، پھر عالم حشر کو سدھارے گا، پھر عالم جنت اس کے لئے ہے۔غرض ہر عالم میں انتقال ہے، ارتحال ہے، ایک سے دوسرے عالم کی طرف اور ساتھ ہی ترقی کے ساتھ یعنی وہ ارذل عالم سے اعلیٰ و اشرف عالم کی طرف منتقل ہوتا رہا ہے۔ جس سے انسان کا ابدی ہونا ثابت ہوتا ہے گو ازلی نہیں اور ارتقاء ثابت ہوتا ہے، پھر اس اپنی حرکت کے ساتھ اس میں وضعی حرکت بھی ہے جو زندگی کی علامت ہے، اس کا قلب متحرک، اعضاء متحرک، معدہ متحرک، جگر متحرک، پھر عمل کی حرکت جسے کسب معاش کہتے ہیں ۔ پھر علمی حرکت بھی ہے، قوت فکریہ بھی متحرک ہے،غرض انسان کا ذرہ ذرہ حرکت ہی ہے جس سے اسے زندہ سمجھا جاتا ہے، جس سے واضح ہے کہ زندگی نام ہی حرکت کا ہے۔ پس زندگی خود متحرک، اس کے آثار متحرک، حرکت مکانی الگ اور حرکت زمانی الگ، حرکت وضعی الگ، حرکت وصفی الگ، حرکت حالی الگ اور حرکت قالی الگ، کہ انسان کی ساری عملی حرکتوں کو نطق میں لانا، لکھنا ممکن نہیں اور جب کہ ہر حرکت کا کچھ نہ کچھ مقصد ہونا لازمی ہے ورنہ وہ