حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ترجمہ : بلکہ وہ اپنے رب کے ذکر سے اعراض کرنے والے ہیں ۔شغب واِضلال یا مثلاً حق پہنچانے کے وقت معاندوں کے شور و شغب کے بارے میں قرآن حکیم نے دوسری جگہ ان کی یہ خصلت تفصیل سے بیان فرمائی ہے کہ کلامِ حق کو سرے سے سننے ہی کا ارادہ نہیں رکھتے چہ جائیکہ سماعِ قبول سے سنتے اور نہ صرف یہ کہ خود سننا نہیں چاہتے بلکہ شور و شغب سے دوسروں کو بھی نہیں سننے دیتے۔ فرمایا: وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لاَ تَسْمَعُوْا لِہٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْ فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَo ترجمہ: اور کافروں نے کہا کہ اس قرآن کو مت سنو اور شور مچاؤ، تاکہ تم غالب آجاؤ۔استہزاء ِ دعوت یا مثلاً قلبی لہو و لعب کے بارے میں فرمایا: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَہْوَالْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِعِلْمٍ وَّیَتَّخِذَ ہَا ہُزُوًا۔ ترجمہ: اور بعض لوگ وہ ہیں جو لغو اور فضول باتیں خریدتے ہیں تاکہ اللہ کے راستے سے بغیر علم کے گمراہ کر دیں اور اس کو تمسخر اور استہزاء بنا دیں ۔ یا مثلاً حدیث میں کثرتِ سوال کی ممانعت فرمائی گئی، جو محض قیل وقال کے لئے ہو اور جس سے واقع شدہ شک کا مٹانا مفقود نہ ہو بلکہ شکوک کا واقع کرنا اور کلام کو مشکوک بنانا منظور ہو۔ نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن کثرۃ السوال وعن قیل وقال وعن اضاعۃ المال۔ (مسلم شریف) ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرتِ سوال ،قیل و قال اور اضاعت ِ مال سے منع فرمایاہے۔ غرض یہ آدابِ مخاطب بتقریر ِ بالااسی آیت کے تقاضے سے ثابت ہوتے ہیں ۔(۸۳)قربانی کی حقیقت قربانی کی حقیقت اور اس کے پس منظر کی وضاحت اتنے سہل اور دل نشیں اسلوب میں فرمائی گئی ہے کہ ایک عامی بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ اسے کہتے ہیں قدرت کلامی اور سحر بیانی۔ اصل میں قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش کرتا مگر