حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
بچوں کو یاد کرادئیے جائیں اور روزانہ نہیں تو کم از کم ہفتہ میں ایک بار پڑھ لئے جاویں ، چوں کہ ذکر اسماء حسنی اور ذکر دعا و سوال اور ذکر تلاوۃ متعین اور مخصوص کلمہ نہ تھا، اس لئے ہم نے ان تین اذکار کا تذکرہ اذکار عشرہ میں نہیں کیا لیکن عملاً ان کو لازم کرلیناچاہئے‘‘۔شجرۂ مشائخ بزرگانِ طریقت ہمیشہ اپنے شجرۂ طریقت کو مناجات کی صورت میں نظم کرتے رہے ہیں ۔ حکیم الاسلامؒ نے بھی اپنا شجرۂ طریقت مناجات کی صورت میں نظم فرمایا ہے، آگے ملاحظہ کیجئے: فرمایا: ’’جس طرح فیضانِ الٰہی ہم تک جناب رسول اللہ B کے طفیل اور توسل سے پہنچا ہے اور اسی لئے آپ تمام عالم بشریہ کے محسن اعظم و مربی اکبر ہیں اور اسی احسان عظیم کو پہچاننے اور ماننے کے لئے درود شریف رکھا گیا جس سے حضورؐ کے ذکر مبارک کے علاوہ بارگاہ خداوندی میں توسل اور قرب و قبول بھی مقصود ہے۔ چنانچہ اسی بناء پر دعاء کے اول و آخر درود شریف پڑھنے کا حکم اور اس سے دعاء کی مقبولیت کا وعدہ احادیث میں دیاگیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح فیضان نبوت ہم تک نائبانِ نبوت اور وارثانِ رسالت کے واسطہ اور وسیلہ سے پہنچا ہے۔ بالخصوص فیضانِ اخلاق و کمالات باطن کے پہنچنے کا واسطہ اور وسیلہ مشائخ طریقت کے سوا دوسرا نہیں ، جو ان کمالات میں خلفائے نبوی اور نبوت کے بعد آپ کے سچے وارث ہیں ۔ بنابریں حضور اکرم علیہ السلام کے بعد بھی یہ حضرات امت کے محسن اور مربی مانے گئے ہیں ، اس لئے اس احسان کو پہچاننے اور ماننے نیز قرب خداوندی اور نسبت نبوی ڈھونڈنے کے لئے ان کا تذکرہ بھی شامل طاعت اور ذکر اللہ ہی شمار کیا گیا ہے کہ یہی لوگ حدیث نبوی اذا اذکر اللّٰہ ذکروإذا اذکروا اذکراللّٰہ ۔ (جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کا ذکر بھی زبان پر آتا ہے اور جب ان کا ذکر کیا جاتا ہے تو اللہ کا ذکر زبان پر آتا ہے) کے سچے مصداق ہیں ، گویا خاصانِ خدا خدا نہ باشند لیکن ز خدا جدا نباشد اور اس ذکر کی صورت مشائخ نے شجرہ پڑھ لینا تجویز کی ہے جو اکابر طریق کا معمول رہا ہے۔ بنابریں شجرۂ چشتیہ مؤلفہ حضرت شیخ المشائخ قطب طریق مرشدنا و مولانا حضرت شاہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی قدس سرہٗ کا پڑھنا بھی معمول بنا لیا جائے، خواہ روزانہ یا حسب ذوق و شوق دوسرے تیسرے دن۔