حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
مولانا موصوف نوجوان صالح، صاحب علم اور عالی خاندان اور دارالعلوم کے ساتھ بحیثیت آبائی نسلاً بعد نسل سچی و دلی ہمدردی رکھنے والے ہیں ۔ حضرت مہتمم صاحب حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ بانی دارالعلوم دیوبند کے فرزند اکبر ہیں اور مولانا محمد طیب صاحب سلمہٗ ان کے پوتے ہیں ۔ حضرت مہتمم صاحبؒ کے زمانے میں دارالعلوم کو جس قدر ترقیات آمدنی میں ہوئیں اور جس قدر تعلیمی معیار بلندہوا جس قدر طلباء کی تعداد بڑھی اورجس قدر ہندوستان سے باہر دور دراز اقالیم و ممالک میں اس دارالعلوم کی قدر و منزلت قلوب میں عامۃً روز افزوں پیدا ہوئی اس کے ثبوت میں خود دارالعلوم ایک مجسم شہادت موجود ہے لہٰذا تمام مسلمانان بہی خواہان دارالعلوم پر عموماً اور مجلس شوریٰ پر خصوصاً روحانی طور سے یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اس خاندان کے کسی فرد کے ہاتھ میں بشرط قابلیت و صلاحیت نظام دارالعلوم تجویز کر دیا جائے تاکہ وہ روحانی فیض جو ترقیات دارالعلوم میں باطنی طور پر ممدو معاون ہے برابر جاری رہے۔ مجلس کی اس تجویز کی رو سے ۱۳۴۱ھ میں حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کو نائب مہتمم بنایا گیا مگر یہ عہدہ آپ کے طبعی رجحان کے خلاف تھا، آپ انتظامی اُمور سے علیحدہ رہ کر یکسوئی کے ساتھ علمی اور تدریسی مشاغل کو پسند فرماتے تھے، چناں چہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد اپنی خواہش و اصرار سے اپنے آپ کو شعبۂ تعلیم میں منتقل کرالیا مگر بالآخر اکابر کے اصرار نے مجبور کیا اور پھر آپ کو نیا بت اہتمام کا عہدہ سنبھالنا پڑا جس پراوائل رجب ۱۳۴۸ھ تک فائز رہے۔ حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانیؒ کی وفات کے بعد مجلس شوریٰ نے پہلے تجربے کے طور پر قائم مقام مہتمم بنایا اور جب اس امر کا یقین ہوگیا کہ اس اہم منصب کے سنبھالنے کی آپ میں بدرجہ اتم صلاحیت موجود ہے تو مندرجہ فیصلے کے ساتھ آپ کو مستقل طور پر مہتمم مقرر کر دیا گیا۔ مجلس کی تجویز یہ ہے: ’’ہم سب ممبران مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند نے ۱۸؍شوال ۱۳۴۸ھ سے ۲۱؍شوال ۱۳۴۸ھ تک دارالعلوم میں رہ کر دارالعلوم کے تمام شعبوں کا غور سے معائنہ کیا۔ جو اُمور بحث طلب مہتمم صاحب نے مجلس شوریٰ میں پیش کیے۔ ان کا بلا رو ر عایت تصفیہ کیا۔ ہم ممبران اس امرکی شہادت دیتے ہیں کہ جب سے حکیم الاسلامؒ مولانا محمد طیب صاحب نے زمام اہتمام اپنے ہاتھ میں لی ہے۔ ان کے ہر طریق عمل سے صدق و اخلاص نیت حب و بغض فی اللہ اور ادائے حقوق اور فرضِ شناسی میں عزم قوی اور ثبات و استقلال بوجہ احسن ثابت ہوتا ہے۔ وللّٰہ حمداً کثیراًطیباً مبارکاً فیہ۔ ہم سب حق تعالیٰ کے فضل و کرم سے قوی امید رکھتے ہیں کہ اس تھوڑی سی مدت میں جن خوبیوں کا مہتمم