حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
مادی مقصد کے لئے اس کو اسطہ بنانا علم کی توہین ہے،یہ دارالعلوم کا وہ مقدس اصول ہے جس کی بنا پر اس نے کبھی پسند نہیں کیا کہ اس کی سند سرکاری ملازمتوں کاذریعہ بنائی جائے۔ (۹) علم ایک دریا ہے جس کی فطرت بخل کو برداشت نہیں کرسکتی، دارالعلوم کا یہی مسلک ہے جس کی بنا پر نہ صرف مسلمان بلکہ علم دوست برادرانِ وطن کی ہمدردیاں بھی اس ادارے کے ساتھ وابستہ رہی ہیں ، انتہا یہ ہے کہ جب تک فارسی نے اپنی پرانی دلچسپی اور مقبولیت ختم نہیں کی تھی تو مسلمان بچوں کے ساتھ ہندو بچے بھی اس کے درجات فارسی سے فیضیاب ہوتے تھے۔ جناب والا! دارالعلوم کے یہی مقاصد ہیں جن کی وجہ سے وہ تمام مادّی ذرائع اور وسائل کے فقدان کے باوجود ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے قدم بڑھاتا رہا، یہاں تک کہ صرف ایک استاذ اور ایک شاگرد سے وجود پذیر ہونے والا مکتب آج یہ عظیم الشان جامعہ ہے جس میں ہند و پاکستان کے علاوہ ایران، افغانستان، تبت، چینی ترکستان، روسی ترکستان، کنکیانگ، برما، انڈونیشیا، سیلون اور افریقہ وغیرہ کے طلبا بھی علمی پیاس بجھا رہے ہیں اور دارالعلوم ان طلبا کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ایک بین الاقوامی بستی بنا ہوا ہے۔ فللّٰہ الحمدتعداد طلبہ اور مختلف شعبہ جات جناب والا!دارالعلوم اپنے ارتقائی منازل طے کرتا ہوا آج ڈیڑھ ہزار طلبہ، چالیس سے زائد اساتزہ اور ڈیڑھ سو سے زائد اسٹاف پر مشتمل ہے، اس کا نظم اٹھارہ انتظامی شعبوں ، تعلیم، افتاء، نشر و اشاعت، صنعت و حرفت، طب، کتابت، محافظ خانہ، دارالاقامہ، تنظیم، اوقاف، کتب خانہ، تعمیرات، مطبخ، صفائی روشنی، محاسبی اور مرکزی ادارہ، ادارۂ اہتمام پر مشتمل ہے۔ دارالعلوم کا سالانہ بجٹ ساڑھے پانچ لاکھ روپئے ہے جو عام قومی چندوں سے پورا ہوتا ہے، طلبہ سے کوئی فیس نہیں لی جاتی اور تمام طلبہ کو بلا تخصیص کتابیں اور دارالاقامہ میں رہنے کی جگہ اور طبی امداد مفت مہیا کی جاتی ہے۔دارالعلوم دیوبند اور آزاد جمہوریہ ہند جناب والا! انقلاب ۴۷ء کے بعد سے لے کر آج تک حکومتِ ہند نے ہمیشہ دارالعلوم کے معاملات سے دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور گورنمنٹ کا اخلاقی تعاون ہمیشہ دارالعلوم کو حاصل رہاہے،ہمیں توقع ہے کہ حکومت ہند اور اس قومی ادارے کے درمیان جس نے حکومت کی تاسیس میں اہم پارٹ ادا کیا ہے یہ خوش اعتمادی اور معاونت باہمی ترقی پذیر رہے گی۔