حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
شاعری میری متاع سخن ہے تمہارا سرمایہ اسے سنبھال کر رکھنا متاعِ جاں کی طرح اکابر ادب نے شاعری کی مختلف تعریفیں کی ہیں ، فرسٹ نے جمالیاتی احساس کو لفظوں کے پیراہن میں ظاہر کرنے کا نام شاعری رکھا ہے، وہ کہتے ہیں : ’’شاعری مسرت سے شروع ہوتی ہے اور بصیرت پر ختم ہوتی ہے۔‘‘ اس کے بعد شاعری کی ہیئت اور مواد پر بحث ہوتی ہے، یعنی اظہار کا طرز اور اسلوب کیاہے اور جس احسا س کو ظاہر کیا گیاہے وہ کیاہے اور کس قسم کا ہے؟ دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’اظہار احساس‘‘ میں جتنی اہمیت ’’اظہار‘‘ کی ہوتی ہے اتنی ہی ’’احساس‘‘ کی بھی ہوتی ہے، عموماً شعر کی تعریف اس کلام موزوں سے کی جاتی ہے جو شاعری کے اوزانِ مقررہ میں سے کسی پر ہو، مقفی ہو اور بالقصد موزوں ہو۔ مرآۃالشعر میں ہے کہ: ’’وہ کلام موزوں و مقفیٰ جو مقدمات موہوم پر مشتمل ہو اور ان کی ترتیب سے نتائج غیر واقعی پیداکرے مگر اس طرح کہ حقیقت کو وہم اور وہم کو حقیقت دکھائے۔‘‘ پروفیسر آل احمد سرور کاکہنا ہے کہ: ’’شاعری زبان کو سلیقہ اور ہنر مندی سے استعمال کا نام ہے اور شاعر ماضی کاامین، حال کا نقش گر اور مستقبل کا نقیب ہوتا ہے۔‘‘ بعض ناقدین نے انکشاف کیاہے کہ’’شاعری اظہار کا نہیں اخفا کا نام ہے‘‘ معیاری شاعری میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں یا یوں کہئے کہ معیاری شاعری کل کی کل اس کی مثال ہوتی ہے۔ طویل سے طویل مضمون کو ایک شعر میں سمیٹ کر رکھ دینا اور ایسے استعارات کا استعمال کرنا جس میں شرح و تفسیر کے اتنے گوشے نکل آئیں کہ ان کی نثر کئی کئی صفحات میں ممکن ہو اور زیادہ سے زیادہ اور بڑی سے بڑی تفصیل اس