حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
(۳) محورِ نظام : یعنی ملاءؔ ِاعلیٰ اور وہ آسمانی بادشاہت کی شاہی کونسل ہے، جو ارواحِ مقدسہ پر مشتمل ہے اور اُن میں مباحث و لم زیر بحث آتی ہیں ، جنھیں اختصامِ ملاء ِاعلیٰ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مَاکَانَ لِیَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَا ِٔ الْاَعْلٰی اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ۔ (حدیث) یا محمد فیم یختصم الملأ الاعلٰی۔(۴) مقصد ِ نظام : یعنی مقصدِ اعلیٰ اور وہ آسمانی بادشاہت کا وہ نصب العین ہے جو تربیت و ہدایت ِکائنات پر مشتمل ہے اور حضرت رب ِاعلیٰ کی شانِ ربوبیت اور قدیر اعلیٰ کی شانِ ہدایت کو ظاہر کرتا ہے: سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَیo الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰیo وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰیo(۵) منشاء ِنظام : یعنی مصلحت ِؔاعلیٰ اور وہ آسمانی بادشاہت کی وہ سرکاری پالیسی اور انداز ِحکومت اور منشاء ِشاہی ہے جس کی رو سے ساری کائنات بحیثیت رعایا اپنے شہنشاہِ حقیقی سے مربوط اور اُس کی گرویدہ و وفادار ہے اور وہ رحمت ِ عامہ ہے: ۱۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی۔ ۲۔ فَقُلْ رَّبُّکُمْ ذُوْرَحْمَۃٍ وَّاسِعَۃٍ۔ ۳۔ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ۔ (حدیث) ان رحمتی سبقت غضبی۔ پہلی آیت سے رحمت کا احاطہ اور تخت ِشاہی سے لے کر ساری کائنات تک کے اوپر استیلاء واضح ہے۔ دوسری آیت سے رحمت کا فی نفسہٖ عموم واضح ہے اور تیسری آیت سے رحمت کے تعلق کا عموم واضح ہے اور چوتھی نص سے رحمت کا غلبہ اور دباؤ ہر چیز پر واضح ہے۔واجباتِ رعیت کی دو جامع ترین نوعیں اس اعلیٰ ترین حکومت اور اُس کے اعلیٰ ترین دستورِ حکومت سے رعایا پر جو حقوق اور واجبات عائد ہوتے ہیں ان کا خلاصہ دو چیزیں ہیں ۔(۱) جذبہ ٔ وفاداری باطنی تسلیم و انقیاد یعنی حلف ِوفاداری کہ ذرہ ذرہ اُس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ اَفَغَیْرَدِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ۔