حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
حضرت بانیٔ اعظمؒ کی حیات میں بڑے طمطراق کے ساتھ میدان میں آئیں اور ان کی جانب سے اسلامی احکام و مسائل پر جاہلانہ اور غلط اعتراضات کی بوچھار کی گئی، لیکن حضرت بانی دارالعلوم اورپھر اُن کے تلامذہ نے مناظروں اور تصانیف کے ذریعہ ان کے برخلاف ایک مضبوط بندھ باندھ کر انہیں ختم کردیا۔ انکار حدیث کا فتنہ ابھرا تو انہیں فضلائے دیوبند نے جیسے حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی، حضرت مولانا مناظر احسن صاحب گیلانی اور راقم الحروف نے نہایت مدلل کتابیں تالیف کرکے اس کا سدّباب کیا، اسی طرح قادیانیت اور دوسرے طریقوں سے مسلمانوں کو مرتد بنانے کی اسکیم تیار ہوئی تو دارالعلوم دیوبندنے پچاس سے زیادہ فضلاء اس کے مقابلہ کے لئے میدان میں اتار کر ان مکروہ سازشوں کا قلع قمع کیا، فقہیات اسلامی میں مداخلت کا فتنہ اٹھا تو دارالعلوم ہی نے قضاء شرعی قائم کرنے کی تحریک اٹھائی اور حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحبؒ مہتمم خامس دارالعلوم نے پانچ سو علماء کے دستخطوں سے برطانوی حکومت کے سامنے محکمہ قضاء شرعی کا مطالبہ پیش کردیا، جس سے یہ باطل تحریک مضمحل ہوگئی، ابھی ماضی قریب میں دوبارہ اس تحریک نے ترمیم فقہ کا روپ اختیار کیا اور عائلی قوانین اور فقہ میں ترمیم کرنے کی آوازیں بلند ہوئیں تو دارالعلوم ہی کی تحریک پر بمبئی میں تمام مسلم فرقوں کا کنونشن بلایا گیا اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ قائم ہوا، جس کی صدارت بالاتفاق مہتمم حال دارالعلوم دیوبند کے سپرد کی اور بورڈ کی متحدہ احتجاجی آواز پر حکومت نے اعلان کیا کہ وہ خود مسلم پرسنل لاء میں کوئی ترمیم نہیں کرے گی۔ غرض برصغیر میں جامعہ دیوبند کے ان علماء ربانیین اور فضلاء صالحین نے درس و تدریس کے مشاغل کے ساتھ مذہبی اور دینی فضاء کو مکدر اور زہر آلود نہیں ہونے دیا بلکہ قلوب اور دماغوں کو جلا بخشنے کے لئے مدلل تحریر و کتاب اور تقریر و خطاب کے ذریعہ ایک زبردست پشتہ بنا کر ان سیلابوں پر بند باندھ کیا۔ اس طرح برصغیر کے مشرکانہ ماحول میں اس نے دین توحید کو اس کی اصلی صورت میں قائم و برقرار رکھا ہے اور آج یہ جامعہ اس بین الاوطانی اجتماع میں اپنی خدمات پر ایک بڑی حسی دلیل کے طورپر اپنے ان ہزاروں فضلاء کو پیش کرنے میں شکر آمیز فخر محسوس کر رہاہے جن کی خدمات سے اطرافِ عالم میں دین پھیلا اورپھیل رہا ہے۔عصری بین الاقوامیت کے تقاضے یہ علمی اور عملی ثمرات اس وقت کے ہیں جب کہ دنیا پھیلی ہوئی تھی اور ہر ملک کا دائرہ عمل اپنی ہی حدود تک محدود رہتا تھا، لیکن آج وسائل نقل و حمل اور ذرائع علم و خبر کے وسیع تر ہوجانے کے سبب یہ پوری دنیا