حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
بعد یہ عالم ہو کہ سالہا سال کے بعد بھی مستحضر، تو تیرہ بار فتح الباری کا مطالعہ کرنے کے بعد کیا عالم ہوگا؟ آپ کے یہاں حدیث کا درس ہوتا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ سارے ہی فنون کا درس ہوتا تھا۔ افسوس کہ آپ کی بتائی باتیں اور تقاریر محفوظ نہ رکھ سکا، مگر یقین ہے کہ اگر حضرت کے جملے ہی محفوظ رہتے تو بھی ان سے مستقل علوم نکلتے اور جو جملے یاد رہ گئے ہیں آج ان سے علوم کے دفتر نکلتے ہیں ۔‘‘ارسطوحکیم ارسطو مشہور حکیم اور فلسفی گذرا ہے، رات دن جڑی بوٹیوں کی تلاش میں رہتا اور ان کا امتحان لیا کرتا تھا، وہ اپنے کام میں اتنا مشغول رہتا کہ اسے نہ دن کی خبر ہوتی اور نہ رات کی، ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ سارے دن کا تھکا ماندہ جنگل سے آیا، دوکان میں بیٹھ گیا، تھوڑی دیر میں آنکھ لگ گئی،اتفاق سے اسی دن بادشاہ کی سواری نکلی ہوئی تھی،آگے آگے نقیب و چوب دار ہٹو بچو، ہٹو بچو کی صدائیں لگاتے آرہے تھے، مگر نیند میں اس طرح مست کہ اسے کچھ بھی خبر نہیں پڑا، سوتا رہا۔ حتی کہ بادشاہ کا اس کے پاس سے گذر ہوا، بادشاہ اسے اس طرح سوتا ہوا دیکھ کر سواری سے اترا اور اسے ٹھوکر مار کر کہنے لگا کہ گستاخ! تو نہیں جانتا کہ میں کون ہوں ۔ ارسطو نے جواب دیتے ہوئے کہا، غالباً آپ جنگل کے درندے معلوم ہوتے ہیں ، اس لئے کہ وہی ٹھوکر مارتے ہوئے چلا کرتے ہیں ۔ بادشاہ کو اس کے اس گستاخانہ کلام کو سن کر اور بھی غصہ آیا، اس نے کہا: بدتمیز! میرے پاس خزانہ ہے، فوجیں ہیں ، قلعہ ہے، تخت و تاج ہے، پھر بھی تو مجھ سے یہ گستاخانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہے۔ ارسطو نے کہا کہ یہ ساری چیزیں تو تیرے باہر کی ہیں ، تیرے اندر میں کون سی چیز، کون سی خوبی اور کون سا کمال ہے تو یقین رکھ کہ جس دن تیرے اوپر سے یہ قبا شاہی اتر جائے گی تو ذلیل ہوجائے گا، تیرا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ آدمی کو فخر اپنے اندر کی چیز پر کرنا چاہئے، جب تیرے اندر کوئی کمال نہیں ہے تو تو کپڑوں اور تخت و تاج سے باکمال نہیں بن جائے گا، یہ قباء شاہی چھوڑ اور ایک لنگی باندھ پھر ہم دونوں دریا میں کودیں ، جب معلوم ہوگا کہ تم کون ہو اور میں کون ہوں ، تیرے اندر کیا کمال ہے اور میرے اندر کیا کمال ہے۔ واقعات کی بات ختم ہوگئی، انداز آپ نے دیکھ لیا، کیسا رسیلا اور کتنا میٹھا، گویا کہ لفظ لفظ پر شہد ٹپکا رہے ہیں ۔ سبحان اللہ، اب آگے ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ طالبانِ علوم کے لئے حکیم الاسلامؒ اپنے نہاں خانۂ دل میں کیا کیا خواہشیں اور تمنائیں رکھتے ہیں اور فضلائے دارالعلوم سے کیسی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں جو پوری ہورہی ہیں یانہیں ،خدا معلوم۔ اس سلسلہ میں ہم اور آپ کیا رائے رکھتے ہیں ؟