حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
صاحب عثمانی ؒ، حضرت مولانا سید میاں اصغرحسینؒ، مولانا اعزازعلی اور مولانا محمد ابراہیم بلیاوی ؒمیرے اساتذہ رہے۔ اسی طرح اپنے رفقاء درس میں بڑے بڑے فضلاء کو جمع پاتا ہوں ۔ لیکن جن رفقاء کے ساتھ تعلیمی دور کا اکثر وقت گذرا، ان میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ مفتی ٔاعظم پاکستان، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، مولانا سید بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی ؒ اور مولانا میرک شاہ کشمیریؒ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ یہ حضرات بھی اپنے علم و فضل میں بے نظیر ہیں ۔ اساتذہ نے کس قدر غیر معمولی شفقت کا ثبوت دیا۔ اس کے بارے میں ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے: حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ حدیث شریف کے استاذ اعلیٰ تھے مگر بے حد نازک مزاج اورحساس طبیعت کے بزرگ تھے۔ طلباء کی ذرا سی غفلت پر خفا ہو جاتے۔ ایک دفعہ طلباء کی کسی غلطی پر خفا ہوکر گھر میں بیٹھ گئے اور دارالعلوم میں سبق پڑھانا موقوف کر دیا۔ طلباء پر استاد کی خفگی کا بہت بڑا اثر ہوا۔ مشوروں کی مجلس منعقد ہوئی اور طلباء نے یہ طے کیا کہ حضرت مولانا عثمانیؒ کو منانے کے لیے ان کے سامنے مجھے پیش کیا جائے۔ حالاں کہ میں خود بھی اس سال حضرت کے ہاں ایک طالب علم ہی تھا۔چنانچہ میں نے حضرت مولانا کی خدمت میں جاکر عرض معروض اور طلباء کی طرف سے ندامت کا اظہار کیا تو حضرت مولانا نے خندہ پیشانی سے میری سفارش قبول فرمائی اور فوراً ہی مدرسہ تشریف لے آئے اور اسباق کا سلسلہ شروع کر دیا۔ میرے ساتھ بزرگوں کی یہ شفقت و عنایت دیکھ کر اکابر کی کشیدگیوں کو دور کرنے کے لیے اساتذہ کی طرف سے مجھے ہی منتخب کیا جاتا تھا۔ (۴)حفظ قرآن و تجوید آپ کے والد محترم کا جذبہ یہ تھا کہ بچہ کو شروع سے ایسے حافظ کے پاس بٹھایا جائے، جو اچھا قاری بھی ہو تاکہ ابتداء ہی سے حروف کے مخارج صحیح طور پر ادا ہوں اور قرآن کو اس کے پورے حقوق کے ساتھ پڑھا جا سکے، چنانچہ اس خدمت کے لیے حضرت مولانا محمد احمد صاحبؒ نے غالباً حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے مشورہ سے مولانا قاری عبد الوحید خاں صاحبؒ الہٰ آبادی (م۱۳۲۶ھ) کو منتخب فرمایا اور ان کو بطور خاص ذاتی طور پر بلا کر اپنے گھر پر رکھا۔ تا کہ وہ بچہ کی تعلیم و تربیت کا فریضہ ادا کریں ۔ قاری صاحبؒ کا قیام و طعام اور مشاہرہ سب اپنے ذمہ لیا۔ (۵)