حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
باکمال اساتذہ سے کسب فیض ایک شفاف ابلتے ہوئے چشمے سے کتنی شفاف نہریں نکل کر سینکڑوں کشت زاروں اور چمنستانوں کی سرسبزی وشادابی اور شبابی ورعنائی کا سامان بنتی ہیں ۔باکمال اساتذہ سے حکیم الاسلام ؒ کے کسب فیض کے لیے یہ تمثیل اگر پوری طرح صحیح نہ ہو قریب قریب تو ہے ہی،سبحان اللہ! علامہ انور شاہ کشمیریؒ،علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، حکیم الامت حضرت تھانویؒ جیسے جبال علم سے نہ صرف کسب فیض بلکہ ان کی نگاہ خاص وفیض خاص جن کے حصہ میں آیا وہ حضرت حکیم الاسلامؒ ہی تو تھے۔ حضرت مولانا انظر شاہ صاحبؒ تحریر فرماتے ہیں : ’’شعور نے آنکھ کھولی تو یہ عصر دارالعلوم کا خیرالقرون تھا، حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کی اگر چہ بینائی جاتی رہی تھی تاہم حیات تھے، بارہا اپنے سینہ بلکہ معرفت و عرفان کے گنجینہ سے مہتمم صاحبؒ کو مس کیا، شیخ الہندؒ کا دست شفقت سر پر رہا، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور حضرت علامہ ابراہیم بلیاویؒ سے ابتدائی اسباق لئے۔‘‘ حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ نے بڑا وقت آپ کی تعلیم کے لئے صرف کیا اور پھر دارالعلوم جو اس وقت ممتاز شخصیتوں کا کہکشاں تھا ان میں سے ہر ایک افادہ کے لئے سرگرم گویا کہ: میں چمن میں چاہے جہاں رہوں میرا حق ہے فصلِ بہار پر آخر کار اپنے وقت کے محدث جلیل القدر ابن حجر اور ثانی ابن ہمام علامہ کشمیریؒ کے اتھاہ علم سے سیرابی کے لئے مستعد ہو گئے اور جم کر استفادہ کیا تاآں کہ جس شب میں علامہ اس خاک دامنی ارضی کو چھوڑ رہے تھے عصر تا مغرب اپنی معروف کتاب ’’مشاہیر امت‘‘ کے لئے بسلسلۂ ابوالحسن کذاب استفادہ فرماتے رہے۔‘‘اخلا ق اخلاق عالیہ کی کھلی کتاب،زندگی کے ہر ہر شعبہ میں پاکیزہ اخلاق کی جھلکیاں ،اعمال ان کی تصویر، احوال ان کی تفسیر، معاملات، معمولات ان کی شرح، پھر زبان و قلم گفتگو میں جاری اور جملہ احوال زندگی میں سرایت کئے ہوئے ایک مستقل ضخیم ولحیم شحیم کتاب ’’اسلام کا اخلاقی نظام‘‘ پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ صاحب کتاب کی فکر و ذہن اور علم و مطالعہ کا افق کتناوسیع ،کتنا عظیم الشان تھا۔یہ تو ایک نمونہ ہے جولان گاہ شخصیت کے ایک زاویہ کا، ورنہ پوری شخصیت اس باب میں مثالی ،نرالی اور دل کشا مناظر کا ایک صحیفہ ہے۔ حضر ت مو لا نا ابو الحسن علی ند ویؒ فر ما تے ہیں :