حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
خیر مقدمی کلمات ڈربن (جنوبی افریقہ) کے مشہور پندرہ روزہ اخبار ’’دی ویوز‘‘ The Views نے حضرت حکیم الاسلامؒ کے دورۂ جنوبی افریقہ کے دوران ڈربن پہنچنے پر مورخہ ۸؍جولائی ۱۹۶۳ء کو ادارہ میں حضرت والا کے خیر مقدم میں تحریر کیا۔ اپنے معزز مہمان اور ایشیاء کی سب سے بڑی اسلامی درسگاہ کے مہتمم حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کے وردو مسعود پر ہم اُن کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ آپ کی مقامی ہندوستانیوں کی تاریخ کے سب سے زیادہ نازک موڑ پر ہورہی ہے جب کہ وہ یہاں کے نسلی امتیاز کے قانون کی بناء پر نہایت سخت مشکلات میں مبتلا ہیں ۔ صوبہ ٹرانسوال کی مسلم اکثریت تجارت پیشہ ہے جن کی تجارتیں برسوں کے بعد استحکام کو پہنچی ہیں ۔ اس زمانے میں جب ملک میں تجارتی منڈیاں ناپید تھیں اور جب اپنے شہر اور گائوں سے دور دوسری بستیوں میں جاکر تجارت کرنا موت سے ہم آغوش ہونے کے مرادف سمجھاجاتا تھا، بڑی محنت اور تکلیف سے گذر کر یہ مسلمان شہرے سے دور اپنی تجارت قائم کرتے تھے، اس زمانے میں نہ سڑکیں تھیں اور نہ آمد و رفت کے وسائل، بسا اوقات موت اور زندگی کے موڑ سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس حالت میں پورے عزم و استقلال کے ساتھ یہ مسلمان وہاں آباد ہوئے اور حیرت انگیز رفتار سے ترقی کے منازل طے کرتے رہے۔ اب یہاں کی قومیت پرست حکومت قانون کے بل پر نسلی امتیازات کے قانون کو عملی جامہ پہنانے کی لئے پوری طاقت کے ساتھ کوشاں ہے جس کے ذریعے ان بہادر لوگوں کو بے گھر کردیا جائے گا اور کسبِ معاش کے مسائل ان کے لئے پھر سے پیدا کردئیے جائیں گے۔ایسے مصائب کے وقت ہمارے مہمانوں کا ورود ہورہا ہے، جس سے ہمیں امید ہے کہ ہمارے حوصلوں اور عزائم میں ترقی و استقلال پیدا ہوگا اور ہم ان مشکلات کے مقابلے میں جم سکیں گے۔ہماری آرزو ہے کہ آپؒ کے پرحکمت الفاظ ہمارے زخموں پرمرہم کا کام دیں گے اور ہمیں اپنی جدوجہد میں قوت ملے۔ نیز ہم قابل احترام مولانا اور ان کے صاحبزادے کا استقبال کرتے ہیں ، وہ ایک ایسے وقت میں ہمارے ساحلوں پر تشریف لائے ہیں جب مسلمانوں نے اسلام کے زریں اصولوں کو چھوڑ رکھا ہے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں میں الجھ کر وہ آپسی تفرقہ کا شکار ہورہے ہیں ۔ ہمیں امید ہے کہ حضرت مولاناؒ اپنے مختصر سے قیام کے دوران مسلمانوں میں بھائی چارہ اور اتحاد کی فضا پیدا فرمائیں گے اور اس مفاہمت اور اتحاد کے قیام کے لئے وہ صرف مسلمانوں کے درمیان ہی جدوجہد نہیں فرمائیں گے بلکہ بلاتخصیص رنگ و نسل وہ ہر فرقہ اور ہر قوم کے ساتھ ’’آشتی‘‘ کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش فرمائیں گے۔