حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
’’میں جب سے وزارت پر ما مو ر ہوا ہو ں بہت سے مقامات پر جا نے کا اتفاق ہو ا اور بہت سی بستیوں میں سپاس نا مے بھی پیش کئے گئے ، ان میں اگر کو ئی سپا س نا مہ میر ے لئے با عثِ فخر ہو سکتا ہے تومیں کہو ں گا کہ وہ آج کا سپاس نا مہ ہے جو دارالعلوم میں دیا گیا ، یہ سپاس نا مہ ایسی قا بل قدر یاد گا ر ہو گا جس کا بھول جا نا مشکل ہے ، میر ے پا س وہ الفا ظ نہیں جن سے میں عز ت افزائی کے احسا س کو بیان کرسکوں ،علما ئے کرام کی بدولت ہندوستان میں اسلا م کا نا م با قی ہے اور اسکی صحیح تعلیم با قی ہے ، وہ جما عت جس نے ہند و ستان میں مسلما نوں کو الحاد و دہریت کے حملوں سے بچا یا ، مسلما نوں میں ان ہی علما ء کی بدولت بر طا نیہ کی حکو مت پر اتنا طویل عر صہ گز رجا نے کے با و جو د کو ئی تغیر پید ا نہیں ہو ا ، ایسے علما ء کی جما عت کسی کو اپنی طر ف سے عزت دے تو میں سمجھتا ہو ں کہ ایک مسلمان کے لئے اس سے زیا دہ خو شی نصیبی نہیں ہوسکتی ، یہ آپ کی عزت افز ائی ایسی چیز ہے کہ میر ے نزدیک اس پر ایک وزارت کیا ہزار وں وزاتیں قر بان کی جا سکتی ہیں ، میں با وجو د اس صو بہ کا و زیر ہو جا نے کے اور با وجو د آپ کے اس احترام کے آپ کو یقین دلا تا ہو ں کہ جو طا لب علم آپ کے مدرسہ میں چھو ٹے سے چھوٹا ہے میں اس سے بھی اپنے آپ کو چھو ٹا سمجھتا ہو ں اور اس کی خدمت کر نا میر ی سعا دت ہے ، مجھ سے جو کچھ بھی اس دارالعلوم کے لئے ہو سکتا ہے چا ہے میں گورنمنٹ میں ہو ں یا نہ ہو ں اس کے انجام دینے کے لئے میں ہر وقت تیا ر ہو ں ۔ سڑک کے متعلق سپاس نا مہ میں ذکر کیا گیا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ یہ کو ئی ایسی خدمت نہیں جس کے انجام دینے کو کو ئی خدمت سمجھا جا ئے میں منا سب سمجھتا ہو ں کہ یہ سڑک بن جا نی چا ہیئے ، مو جو دہ حکو مت اپنے حدود کے اندر رہ کر جو خدمت انجا م دے سکتی ہے اس کے لئے ہر وقت تیا ر ہے، یہا ں کے مدرسین اور طلبا ء کی خدمت کے لئے میں مو جودہ حکو مت کی طر ف سے یقین دلا تا ہو ں ۔‘‘عالم عر ب کے وفود ۹۴؍۱۳۹۳ھ میں سعودی عرب سے دو وفد دارالعلوم میں آئے۔ ایک وفد جو رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی جانب سے دنیا کے مختلف ملکوں کا دورہ کر رہا تھا وسط سال میں آیا۔ سید ابراہیم ثقاف رئیس الوفد تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد دوسرا وفد آیا۔ اس میں وزارتِ معارف کے ڈائریکٹر اور ادارہ مباحث علمیہ کے نمائندے شامل تھے۔ ان حضرات نے دارالعلوم کو دیکھنے کے بعد اسے علم کا روشن مینار، عرفان و معرفت کا مرجع اور طالبین ہدایت کی پناہ گاہ قرار دیا اور حکیم الا سلا م ؒکی خدمات کا اعتراف کیا۔