حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
رائے عالی حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نائب رئیس الجامعہ، دارالعلوم، کراچی حضرت حکیم الاسلامؒ کی ذات ِ گرامی دارالعلوم دیوبند کے اس بابرکت دَور کی دل کش یادگار تھی جس نے حضرت شیخ الہندؒ، حضرت تھانویؒ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ اور ان جیسے دوسرے حضرات کا جلوئہ جہاں آرا دیکھا تھا۔جس ہستی کی تعلیم وتربیت میں علم وعمل کے ان مجسم پیکروں نے حصہ لیا ہو۔ اس کے اوصاف و کمالات کا ٹھیک ٹھیک ادراک بھی ہم جیسوں کے لیے مشکل ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ حضرت حکیم الاسلامؒکے پیکر میں معصومیت حسنِ اخلاق اور علم وعمل کے جو نمونے ان آنکھوں نے دیکھے ہیں ان کے نقوش دل ودماغ سے محو نہیں ہوسکتے۔ احقر کے والد ماجد مفتی اعظم پاکستان قدس سرہ اور حضرت حکیم الاسلام قد س سرہ بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھ اور زندگی کے ہر مرحلے میں ایک دوسرے کے رفیق رہے۔دونوں نے دارالعلوم دیوبند میں ایک ساتھ پڑھا۔ ساتھ فارغ ہوئے۔ ساتھ ہی پڑھانا شروع کیا۔ دونوں ایک ہی وقت میں حضرت شیخ الہندؒ کے دست ِ مبارک پر بیعت ہوئے اور پھر حضرت کی وفات کے بعد ایک ہی ساتھ تھانہ بھون حاضر ہوکر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کے حلقہ ٔ ارادت میں داخل ہوئے اور تقریباً ساتھ ہی ساتھ دونوں کو حضرت تھانویؒ کی طرف سے خلافت عطا ہوئی۔ ۱۳۴۵ھ میں سب سے پہلا حج بھی دونوں نے ساتھ کیا، غرض ظاہری تعلیم اور باطنی تربیت سے لے کر سیروتفریح تک ہر چیز میں دونوں کی رفاقت مثالی تھی۔پھر جب قیام ِ پاکستان کی تحریک شروع ہوئی اور آزادی ِ ہند کے طریق ِ کار سے متعلق علماء دیوبند کے درمیان اختلاف رونما ہوا تو حضرت والد صاحب ؒ کی طرح حضرت حکیم الاسلامؒ کا نقطہ ٔ نظر بھی حکیم الامت حضرت تھانویؒ اور حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی کی رائے کی طرف مائل تھا۔ لیکن حضرت حکیم الاسلامؒ نے اپنے آپ کو عملی سیاست سے بالکلیہ یک سو کرکے ہمہ تن دارالعلوم دیوبند کی خدمت کے لیے وقف کیا ہوا تھا۔ اس لیے یہ نقطہ ٔ نظر اسٹیج پر نہ آسکا۔ حضرت والدصاحبؒ قیام پاکستان کے بعد یہاں تشریف لے آئے اور حضرت حکیم الاسلام ؒکے لیے دارالعلوم دیوبند کی گراں بار