حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
محدّثِ عصر علامہ انور شاہ کشمیریؒ حکیم الاسلامؒ فر ما تے ہیں : ’’حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند حضرت شیخ الہندؒ کے مخصوص شاگردوں میں سے ہیں ۔ علم کا چلتا پھرتا کتب خانہ تھے۔ آپؒ تمام علوم منقولات و معقولات میں کامل دستگاہ رکھتے تھے۔ قوت حافظہ میں یگانۂ روزگار تھے۔ کئی مشہور محققانہ کتابوں کے مصنف تھے۔آپؒ کا درس حدیث اپنے دَور کا مشہور درس تھا۔ جو ایک خاص امتیازی طرز لیے ہوئے تھا۔آپؒ کے تبحر علمی نے درس حدیث کو جامع علوم و فنون بنا دیا تھا۔آپؒ کے درس نے نقل و روایت کی راہ سے آنے والے فتنوں کے لیے آنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ کتنی معرکۃ الآراء کتابیں خود بھی تصنیف فرمائیں اور بڑے اہتمام کے ساتھ اپنے تلامذہ سے بھی لکھوائیں ۔ اس بارے میں بڑے شغف کے ساتھ لکھنے والوں کو علمی مدد دیتے تھے اورکوئی بھی اپنا نوشتہ لاکر سناتا تو غیر معمولی خوشی کا اظہار فرماکر دعائیں دیتے تھے۔ ۱۳۲۷ھ سے آپ ؒنے دارالعلوم دیوبند میں درس کا آغاز فرمایا۔ ۱۳۳۴ھ سے ۱۳۴۵ھ تک آپؒ دارالعلوم کے صدر مدرس رہے اس دوران تقریباًایک ہزار طلباء نے آپ سے استفادہ کیا جن میں سے آپؒ کے دور مدرسی میں ۸۰۹ طلباء نے درس حدیث لیا اوراس فن پاک کو تقریراً و تحریراً اور درساً و تدریساً دور دور تک پھیلایا۔(۱۴) حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒفرماتے ہیں : ’’امام العصر نمونۂ سلف حضرت مولانا سید محمد انورشاہ کشمیریؒ اپنے علم و فضل میں یکتائے روزگار تھے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہٗ نے اپنی ایک مجلس میں فرمایا کہ اس زمانہ میں مولانا انورشاہؒ کا وجود اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے۔‘‘ آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے تمام علوم و فنون میں ایک بے نظیر جامع عالم بنایا تھا۔ خصوصاً حدیث میں تو اپنے زمانے کے امام زہریؔ اور حافظ ابن حجر سمجھے جاتے تھے۔ آپؒ کا درس حدیث ایک مثالی درس تھا۔ اپنے استاذ حضرت شیخ الہند قدس سرہٗ کی وفات کے بعد دارالعلوم میں بحیثیت صدر مدرس گیارہ سال درسِ حدیث کی خدمات انجام دیں ۔ جس میں ایک ہزار سے زائد طلبہ نے آپؒ سے درس حدیث لیا اور سینکڑوں علماء و محدثین پیدا ہوئے۔ (۱۵) حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ میں نے ہندوستان، حجاز، عراق، مصر، شام