حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
وقت کی تاریخ کا بھی ایک جائزہ ہوتا ہے، وہ ایک فرد ہی کی تاریخ نہیں ہوتی، بلکہ اس وقت کے معاشرے اور جماعت کی تاریخ کا بھی بہت کچھ عکس اس میں آجاتا ہے۔‘‘ (۳۸)صبرو ضبط معمولی ناگواریوں اور تکلیفوں میں بھی صبرو ضبط کی اہمیت اپنی جگہ پر مسلم ہے، مگر جاں گسل حالات اور حوصلوں کو پست کردینے والی مشکلات و حوادث میں صبر و ضبط ایک ایسی اخلاقی صفت ہے جو انسان کو عظمت اور عزیمت کے مقام پر پہنچاتی ہے۔ تاریخ اسلام صبر آزما حالات اور دلدوز حادثات کی سچی داستانوں سے پُر ہے۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ ان حالات سے گزرنے والوں نے نہ صرف بے مثال صبرو ضبط کا مظاہرہ کیا بلکہ اولوالعزمی کی ایک تاریخی رقم کی، جو بعد میں آنے والوں کے لئے راہِ حق میں مصائب جھیلنے اور صبر سے کام لینے کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئی۔ حکیم الاسلامؒدارالعلوم دیوبند جیسے عالمی دینی ادارہ کے طویل المدت مہتمم رہے، ایک منتظم اور ذمہ دار کتنا بھی نرم مزاج اور بردبارہو، تب بھی ضروری نہیں کہ ماتحت ہمیشہ اس سے خوش رہیں یا اس کی عظمت و احترام میں فرق نہ آنے دیں ۔ حضرت حکیم الاسلامؒ خود فرماتے تھے کہ اہتمام ’’تہم‘‘ سے بنا ہے گویا درد سر ہے۔ دورِ اہتمام میں ماتحتوں کی طرف سے یقینا تکلیف بھی پہنچی ہوگی اور عمر کی آخری منزل میں انہیں جن تکلیفوں سے دوچار ہونا پڑا ان میں آپ کے صبرو ضبط کا جوہر کھلا اور بدترین دشمن نے بھی اس کا اعتراف کیا کہ حکیم الاسلامؒ واقعی صبرو ضبط کا پیکر اور عزم و استقلال کا پہاڑ تھے۔ سخت سے سخت مرحلہ پر بھی اف تک نہیں کیا، دوسروں کو بھی اس کی تلقین کی۔ قضیہ دارالعلوم دیوبند اس کی زندہ مثال ہے۔مستقل مزاجی آپ کی زندگی کے طویل عرصہ میں خدا جانے کتنے نشیب و فراز آئے، کتنے سنگلاخ آئے، ہفت خواں آئے، پہاڑوں سی رکاوٹیں کھڑی ہوئیں ، طوفانوں نے قدم روکنا چاہا، فتنوں کے سیلاب امنڈے، مخالفتوں کا طوفان ابلا، عداوتوں کی آندھیاں چلیں ، مخاصمتوں کے بگولے اڑے اور ایک وقت تو وہ آیا کہ از مبتدا تا خبر، از اول تا آخر۔سوائے عداو ت و مخالفت کے اور کچھ نہ رہا، لیکن یہ حلم کا پہاڑ، وقار کا بادشاہ، مکارم اخلاق کا خسرو، شرافت و انسانیت کا شہنشاہ، مروت و وفا کا تاجدار اپنی جگہ سے قطعاً نہیں ہلا، استقامت میں فرق نہیں آیا، طمانیت نے لڑکھڑانا نہ جانا، سب سنا، سب نے کہا، حریف دست گریباں ہوئے، چھوٹوں نے