حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سپاس نامہ یہ سپاس نامہ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۶۳ء کو اہالیانِ دیوبند کی طرف سے حضرت حکیم الاسلام ؒکی خدمت میں پیش کیا گیا۔ حضرت والا! جذبات شکر و سپاس کے حامل الفاظ کا مشاہدہ اور سماعت آپ کی ذات کے لئے کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے لیکن اسرار کی زبان میں گفتگو کی اجازت ہو تو دیوبند کی جامع مسجد میں اہالیانِ دیوبند کی طرف سے آپ کی خدمت میں پیش کئے جانے والے الفاظ کے یہ خوبصورت پھول ایک جہانِ معنیٰ اپنے اندرپوشیدہ رکھتے ہیں ۔دارالعلوم کے صدر دروازہ سے لے کر دور بحر اٹلانٹک کے ساحل تک آپ کی عظمت عالمگیر کے سامنے خلوص اور اعتراف عظمت کے کتنے ہی الفاظ سجدہ ریز ہوئے ہوں گے،کتنی ہی گردنیں آپ کی بزرگی و عظمت کے سامنے جھک گئی ہوں گی، سپاس اور سپاس ناموں کی لامحدود قطاروں نے آپ کی خدماتِ جلیلہ کے اعتراف و احسان کو محبت اور خلوص کی خوشبوئوں سے بسے ہوئے الفاظ کے ذریعہ ادا کیا ہوگا۔ اس لئے ہم اس سپاس نامہ کی ظاہری قدر و قیمت کے معاملہ میں ترزبانی کا اعتراف اور عجز بیانی کا اظہار کرتے ہیں ۔ زعیم ملت! اظہار شکر و سپاس اور مقام عجز و نیاز لباس و احوال کے اختلاف کے باوجود اپنے مقام عروج پر متحد اور ایک رنگ ہوجاتے ہیں ۔ اول مقام وہ ہے جہاں احساس شکر و سپاس جذبات کے وفور سے بوجھل ہو کر زبان کو گنگ اور گلوگیر کردیتا ہے۔ جذبات کا سیلاب و سیلوں اور واسطوں کی حدود کو توڑ کر بہہ نکلتاہے، ایسی حالت میں خاموشی سب سے بڑا اعتراف اور ترزبانی سب سے بڑا اظہار بن جاتی ہے اور جب احساس و اظہار مجسم ہوجائیں تو ذہن و زبان کے لئے سب سے بہتر چارہ کار یہی ہے کہ وہ دل کی دھڑکنوں کے راستے سے ہٹ جائیں ۔ ایسا ہی کچھ ہمارا حال ہے۔ اس مختصر سے اظہار عقیدت میں الفاط کے خوبصورت پھول نہیں ہیں ۔ رسمیت کے تزئین و آرائش نہیں ہیں ، کند جذبات کا ملمع نہیں ہے،کھوکھلے احساس کی پردہ داری نہیں ہے،یہ ایک مختصر سا مجہول سا، نامکمل سا اعتراف ہے جو دیوبند کے لوگ اپنے ایک ہم وطن اپنے ایک بزرگ، اپنے ایک زعیم، اپنے ایک عالم، اپنے ایک رہنما اور اپنے ایک درویش کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں ، اس کی سب سے بڑی اہمیت یہی ہے کہ وہ ایک وطن والے کو اہل وطن کی طرف سے پیش کیا جارہا ہے۔