حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
کوہسار فطرت کی عظمتوں کا نمائندہ ہر پہاڑ ہیں گھاٹیاں عمیق تو میلوں کے ہیں دراز سارے پہاڑ شدت ورفعت میں ہیں عجیب رہتے ہوئے زمین پہ فلک سے ہیں پھر قریب میخیں زمین کی ہیں ستون آسمان کے ہیں یا آسماں پہ چڑھنے کو مثل آستان کے ہیں گویا سروں پہ اپنے لئے آسمان کے ہیں گھٹنے تلے دبائے ہوئے اس سرزمیں کو ہیں اس ڈولتی زمیں کے لئے پاسباں ہیں یہ ٹھہرے ہوئے فلک کے لئے نردباں ہیں یہ ارض وسماں کو ایک انہوں نے بنادیا گویا کھڑا ہے رفعت وعظمت کا اک گروہ وہ کون ہے جو ان کی بلندیوں کو پاسکے یا ان کی چوٹیوں کے کوئی پاس جاسکے بلڈنگ ہو کہ اس کی زمینِ کرخت ہو پانی ہو سبزہ ہو کہ تناور درخت ہو قدموں میں ان کے پستی سے سب ہیں پڑے ہوئے دامان کوہ کی ہیں تہوں میں جمے ہوئے گویا یہی پہاڑ یہاں کررہے ہیں راج تخت ان کا ہے زمیں تو سروں پر فلک کا تاج سبزے کا ہے لباس تو چادر ہے برف کی قدرت نے کیا ہی اس پر عنایت ہے صرف کی اشجاران کی فوج زُمرّد کی دردیال سر پر ہیں رنگ رنگ کے پھولوں کی پگڑیاں ہتھیار ان کی شاخیں ہیں رفعت ہے ان کی ڈھال جو چڑھ کے آنے والوں کو کردیتی ہے نڈھال جس نے چڑھائی کی وہ وہیں زیر ہوگیا اکڑا اگر کوئی تو وہیں ڈھیر ہوگیا چشمے ہیں ان کی جود وسخاوت کا اک نشاں ان کی یہ ذرّیت ہیں انہی کی ہیں یہ نمود ورنہ کہاں تھی ان میں یہ ہستی کی ہست وبود مردہ زمین اُن سے ہی پاتی ہے پھر حیات لیتے جنم پھر اُن سے ہیں حیوان اور نبات اشجار ان کی دین سے سب نونہال ہیں خطے چمن کے منظر حسن وجمال ہیں احجار کا نمو ہے انہیں کے نَمَا کی شاخ پھر ان کے واسطے سے ہیں سنگین قصر و کاخ ان کے طفیل ہی سے ہے سب میں یہ انبساطکشمیرکے تاریخی باغ ان منظروں میں ان کے ہیں آثار مرتسم جنت نشاں ہے ان کے جہاں بھی پڑے قدم اک سمت اگر ہے چشمہ شاہی کا سبز باغ سمتِ دِگر میں روح فزا ہے نشاط باغ