حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ہم حکیم الاسلام ؒ کی خاندانی ذہا نت وذکا وت شوق و ذوق اور فہم و فراست کی علامت کہہ سکتے ہیں ۔اساتذہ و شیوخ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کے اساتذہ و شیوخ اپنے دور میں علم و عمل کا نمونہ، عوام و خواص کا مر جع،ورع و تقو یٰ میں بے مثال، علوم و فنون میں راسخ اور اخلا ص و للّٰہیت کی تصویر تھے۔ جیسا کہ خود حضرت حکیم الا سلام ؒ نے تحریر فر ما یا :شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ حکیم الاسلام حضر ت مولانا محمد طیب صاحب ؒفرماتے ہیں کہ: ’’آپ حضرت نانوتویؒ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے اور دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین تھے۔ حضرت نانوتویؒ کے بعد قاسمی علوم کا جو فیضان عالم میں آپ کی ذات سے ہوا اس کی نظیر دوسرے تلامذہ میں نہیں ملتی۔ اپنے استاذ پر فانی اور ان کے علم میں غریق تھے۔ دین کے ہر دائرے میں آپ کی خدمات نمایاں مقام رکھتی ہیں ۔ درس و تصنیف ارشاد و تلقین اور جذبۂ جہاد و حریت میں آپ کی خاموش خدمتیں زبانِ حال سے گویا ہیں ۔ آپؒ اپنے استاذ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کے علوم کے امین اور خزینہ دار تھے۔ آپؒ نے ان علوم کی ایضاح و تفصیل اور تفہیم و تیسیر میں نمایاں حصہ لیا اور عظیم خدمت انجام دی۔ حضرت نانوتویؒ کی تصانیف کی اعلیٰ ترین طباعت و تزئین حواشی و عنوانات آپؒ ہی نے شروع فرمائی اور حجۃ الاسلام پر آپ ہی نے سب سے پہلے عنوانات قائم کیے۔ قرآن شریف کا ترجمہ فرمایا۔ بخاری شریف کے ابواب و تراجم پر ایک جامع اور دبیز رسالہ تصنیف فرمایا۔ متعدد مناظرانہ تصانیف بھی تالیف فرمائیں اور مناظرے بھی کیے۔ دارالعلوم دیوبند میں چالیس برس تک مسلسل درسِ حدیث دے کر (۸۶۰) اعلیٰ استعداد کے صاحب طرز عالم دین فاضل علوم اور ماہرین فنون پیدا کیے۔ آپؒ کا درسِ حدیث اس دور میں امتیازی شان رکھتا تھا اور مرجع علماء تھا۔ آپؒ کو علماء عصر نے محدثِ عصر تسلیم کیا۔ بیعت و ارشاد کے راستہ سے ہزارہا تشنگان معرفت کو عارف باللہ بنایا اور آپ کا سلسلۂ طریقت ہندوستان سے گذر کر افغانستان اور عرب تک پہنچا۔ متعدد علمی تصانیف آپؒ نے ترکہ میں چھوڑیں ۔ اس کے علاوہ ہندوستان کو غیر ملکیوں سے آزاد کرانے کے لیے ایک زبردست