حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
ملفوظات مثلِ خورشید سحر فکر کی تابانی میں بات میں سادہ و آزادہ معانی میں دقیق الفاظ زبان سے ادا ہوں یا نوکِ قلم سے، نثر میں ہوں یا نظم میں ، کیفیت مسرت میں ہوں یا احساسِ الم میں ، عہد شباب میں ہوں یا دو رِ کہولت و شیخوخت میں ، عالم کوئی سا بھی ہو، فضا کیسی بھی ہو، بہر صورت شخصیت شناسی کا پیمانہ ہوتے ہیں ۔ شیخ سعدیؒ کا یہ حکیمانہ شعر تو سنا ہی ہوگا : تا مردے سخن نہ گفتہ باشد عیب و ہنرش نہفتہ باشد پھر گفتگو کرنے والا ایک عام انسان نہیں بلکہ دینی شخصیت اور مستند عالم شریعت ہو تو اس کے الفاظ، اس کی شخصیت کے شایانِ شان، اس کی دینی حیثیت، اس کی علمیت، بصیرت اور دیدہ وری کی بو و باس اور کردار و عمل کی روشنی لئے ہوئے ہوتے ہیں ۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کی شخصیت کو جب ہم ان کے الفاظ اور ملفوظات کے آئینہ میں دیکھتے ہیں تو ہمیں فضل و کمال اور حکمت و معرفت میں ایک ایسا پُرنور، پرکشش اور پروقار چہرہ دکھائی دیتا ہے جس کی ادنیٰ جھلک بھی مخاطب کو مسرور و مسحور اور محظوظ کردیتی ہے۔ سادہ، سہل اور جچے تلے الفاظ، جب ان کے سحر انگیز لہجہ میں ڈھل کر سامعہ نواز ہوتے ہیں تو عسلِ مصفیٰ کی حلاوت، آب حیات کی جاں نوازی، نسیم سحر کی ٹھنڈک، شراب طہورکی سرمستی اور فردوس بریں کی دل کشی پیدا کردیتے ہیں ، جن خوش طالع نفوس کو حضرت حکیم الاسلامؒ کی زبان سے ان کے پاکیزہ کلمات کو براہِ راست سننے کا موقع ملا، سعادت مندی میں ان کی ہمسری ممکن نہیں ، ان کے حصہ میں الفاظ کے ساتھ صاحب الفاظ کی قلبی کیفیات اور لہجہ کی سحر طرازیاں بھی آئیں اور آئندگان کے لئے یا ملفوظات کا مطالعہ اور ان میں پوشیدہ حکیم الاسلام کا دینی فکر