حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
رائے گرامی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب مدظلہٗ ناظم دارالعلوم ندوۃالعلماء، لکھنؤ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اپنے عہد کی بڑی مایۂ ناز علمی و دینی شخصیت تھی، علم دین اور حکمت و دانش کے بلند پایہ حامل تھے۔ انہوں نے اپنے عظیم مورث اور علوم دینیہ میں مقام بلند رکھنے والے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے علمی گہرائی اور وسعت کی وراثت پائی تھی، اس کو ان کی تقریروں ، تحریروں اور درس میں محسوس کیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے اس بلند علمی مقام کے ساتھ ساتھ دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم درس گاہ کو جو اُن کے اسلاف کی کوششوں کا مرکز رہی تھی، اپنے آغاز جوانی میں سنبھالا اور اس کی خدمت میں اپنی پوری عمر لگادی۔ ان کی کوششوں کا مظہر صرف دارالعلوم دیوبند کی ترقی اور مضبوطی میں ہی نمایاں اور محدود نہیں تھا، بلکہ اس کے نمائندۂ خاص ہونے کے تعلق سے ہندوسانی مسلمانوں کی دینی رہنمائی کا فریضہ بھی اثر پذیری کے ساتھ انجام دیا، مسلمانوں میں جو دینی انحراف یا عقائد کی خرابی پائی جاتی تھی، اس کے ازالہ میں بھی خصوصی حصہ لیا۔ خاص طور پر بمبئی وغیرہ کے علاقہ میں بہت سے لوگوں کی اصلاح میں ان کا نمایاں حصہ رہا۔ وہ ایک دل نواز اسلوب کے حامل خطیب تھے۔ ان کی کئی کئی گھنٹے کی تقریریں سامعین اس طرح سنتے تھے کہ ان کا نہ جی اکتاتا تھا اور نہ وہ تھکتے تھے۔ ان کی محبت بھی دل نواز تھی، جس سے ان کے ملنے والے اور ان کے سننے والے متاثر ہوتے تھے، وہ اپنی باطنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ، صاف ستھرے مظہر کے اور دل نواز طرز و انداز کے مالک تھے، طبیعت میں نرم مزاجی اور خوش اخلاقی تھی، اُن سے مل کر مسرت حاصل ہوتی تھی اور طبیعت ان کی طرف مائل ہوتی تھی۔ گفتگو اور اندازِ کلام دل کو متاثر کرنے والا اور ذہنوں کو مطمئن کرنے والا ہوتا تھا۔ اپنی بات کو علمی و تاریخی حوالوں اورمثالوں سے واضح کرتے تھے۔ بعض اہم ترین موقعوں پر علماء کی طرف اُن کی نمائندگی بڑی مؤثر ثابت ہوئی، خصوصاً جب مولانا ابوالکلام آزاد نے علماء کا ایک مشاورتی اجتماع لکھنؤ میں بلایا تھا اور یہ وہ وقت تھا کہ ہندوستان آزاد ہونے پر مدارس دینیہ کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھ رہے تھے اور