حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
سفر پاکستان مولانا اکبر شاہ بخاریؒ حکیم الاسلامؒ کے سفر پاکستان اور خطبات ودینی مصروفیات کے بارے میں تفصیل سے لکتے ہیں : ’’ حضرت حکیم الاسلام قدس سرہٗ کے لیے پاکستان کوئی اجنبی اور نیا ملک نہیں تھا۔ انھوں نے تو اس کے لیے قربانیاں دی ہیں اور وہ اپنے شیخ و مربی حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہٗ اپنے استاذ مکرم شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی ؒ اور ہم عصر علماء کرام حضرت مولانا ظفر احمد صاحب عثمانیؒ، حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب دیوبندیؒ، حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب امرتسریؒ، حضرت مولانا خیر محمد صاحب جالندھریؒ، حضرت مولانا شبیر علی صاحب تھانویؒ، حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلویؒ، حضرت مولانا اطہر علی صاحب سلہٹیؒ اور دیگر حضرات کی طرح قیام پاکستان کے لیے کوشاں رہے۔ تحریک پاکستان میں اپنے شیخ اور استاذ کے حکم پر سرگرم حصہ لیتے رہے۔ انہیں پاکستان سے محبت تھی۔ ان کے عزیز و اقارب یہاں کثرت سے موجود ہیں یہ ان کا اپنا گھر تھا وہ یہاں بارہا تشریف لائے اور پاکستان کے بڑے بڑـے شہروں کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور، ملتان اور فیصل آباد کے دینی مدارس میں عوام و خواص کو اپنے سحر انگیز خطابات سے محظوظ فرماتے رہے ۔ ہزاروں افراد یہاں آپ کے فیضِ علمی و روحانی سے مالا مال ہوئے۔ جب بھی آپ پاکستان تشریف لاتے تو خاص طور پر اپنے رفیقِ خاص مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحبؒ کے ہاں دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحبؒ کے مدرسہ جامعہ اشرفیہ لاہور اور حضرت مولانا خیر محمد صاحب جالندھریؒ کے مدرسہ خیر المدارس ملتان ضرور تشریف لے جاتے۔ فرمایا کرتے تھے کہ: ’’پاکستان میں مولانا مفتی محمد حسن ؒ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مولانا خیر محمد صاحبؒ اور مولانا محمد یوسف بنوریؒ صاحب کی طرف نظریں اٹھتی تھیں اب یہ سب حضرات چل بسے۔ اب یہاں آنے اور رہنے کا مزہ نہ رہا‘‘۔ ان حضرات سے آپ کے گہرے روابط تھے اور یہ حضرات آپس میں ایک دوسرے کا بے حد احترام فرماتے تھے ۔ ایک بار لاہور کے قیام میں فرمایا کہ: ’’ ہمارا مدرسوں میں جن سے زیادہ ملنا جلنا تھا اور جن کی کشش ہمیں یہاں لے آتی تھی وہ نہ رہے ان میں ایک تو مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلویؒ تھے جن کا حال ہی میں انتقال ہوگیا۔ دوسرے مولانا بدر عالمؒ