حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
طرح بخشی جائے تو یہ صلحائے امت کمر ہمت باندھ کر میدان میں آئے جو رسمی قسم کے لیڈر نہ تھے بلکہ خدارسیدہ بزرگ اور اولیاء وقت تھے جو غیبی اشارے کے تحت کھڑے ہوئے اور آگے بڑھے جن کے سربراہ حجۃ الاسلام حضرت الامام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ تھے جنہوں نے اس غیبی اشارے کو سمجھ کر اسے اس تجویز کی صورت دی کہ ایک دینی درسگاہ قائم کی جائے اور اس کی تعلیم و تربیت اور علم و عمل کے ذریعہ ڈوبتے ہوئے مسلمانوں کو سہارا دے کر دلوں کی مردہ زمینوں کو زندہ کیا جائے۔ چنانچہ ۱۵؍محرم ۱۲۸۳ھ مطابق ۳۰؍مئی ۱۸۶۶ء کو تعلیمی رنگ میں عالمگیر احیائِ دین کی تحریک کا یہ پودا چھتہ مسجد میں (جو آپ حضرات کی نگاہ میں آچکی ہے) ایک انار کے درخت کے نیچے صرف دو آدمیوں کے ذریعہ نصب کیاگیا، دونوں کا نام محمود تھا، ایک محمود معلّم تھا اور ایک محمود متعلّم جو بعد میں شیخ الہند مولانا محمود حسن کے نام سے معروفِ زمانہ ہوا۔ اس وقت نہ اس گمنام مدرسہ کے پاس اپنا کوئی مکان تھا نہ مکان بنانے کا سرمایہ نہ پروپیگنڈہ تھا نہ اشتہار و اعلان کا تخیل، صرف توکل علی اللہ کا سرمایہ تھا جس کی تلقین اور تاکید خود بانیٔ اعظم حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہٗ کے ہشت گانہ اساسی اصول میں بار بار بشد و مد کی گئی ہے۔دارالعلوم دیوبند احیائے دین کی عالمگیر تحریک غور کرنے کی بات ہے کہ جس طرح ہندوستان سے اسلامی شوکت ختم ہوجانے کا حادثہ محض مقامی یا محض ملکی قسم کا نہ تھا بلکہ عالمی رنگ کا تھا، جس کے دوررس اثرات دوسرے اسلامی ملکوں پر بھی پڑے، چنانچہ تھوڑی ہی مدت کے بعد ہندوستان کی غلامی کتنے ہی ملکوں اور ریاستوں کی غلامی پر منتج ہوئی، اسی طرح ایمانی اور علمی رنگ میں احیاء دین کی یہ تحریک جو ’’محمودین‘‘ سے شروع ہوئی، ابتداء محض ایک ضعیف کونپل کی صورت میں نمودار ہوئی مگر اہلِ نظر کی نظر میں اس کونپل بلکہ اس کے تخم ہی میں ایک تناور درخت شجرۂ طیبہ لپٹا ہوا محسوس ہوچکا تھا، جس کے شیریں ثمرات سے ہندوستان ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک بھی بہرہ مند ہونے والے تھے اور وہ دین کی نشأۃِ ثانیہ کا مصدر و منشاء بننے والا تھا۔ اس لئے جہاں غلامی کے رنگ میں اس ملک کی تخریب عالمی تھی وہیں تعلیمی رنگ میں تعمیری تحریک بھی بانی اعظم کے فکر پر عالمی ہی رنگ سے اٹھی، جو نہ صرف علم دین کے لحاظ سے ہی عالمگیر ہوتی چلی گئی بلکہ قومی اور ملکی مفادات کے لحاظ سے بھی ہمہ گیر ثابت ہوئی تاآں کہ اسی تحریک کے پروردوں نے جہاں سو برس بعد غلام ہندوستان کو آزاد کرایا وہیں اس کے طبعی نتیجہ کے طور پر جو ممالک اور ریاستیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے وہ بھی رفتہ رفتہ آزادی کا سانس لینے لگے، تخریب اگر عالمی انداز کی تو اس کے ردعمل کے