حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
نہیں قسمت میں جن کی کشف میں پنہاں میں وہ ہستی ہوں چمن میں باغِ امکاں کے عدم ہے آشیاں میرا میں وہ کشتی ہوں جس کا ناخدا آغوشِ طوفاں ہے فضا کے تند جھونکوں پر چلا ہے بادباں میرا اس عالم کے مرقع میں میں اک تصویر باطل ہوں سراب وہم کی موجوں میں ملتا ہے نشاں میرا صدف ہوں پھر بھی اک نایاب سا اس بحر ہستی کا کہ صدر چشمک زنِ لؤلؤ ہے اشکِ خونچکاں میرا ہویدا کچھ نہیں گو چشمِ غم سے نورِ گویائی میں خود غم کی زباں ہوں گم اگر ہے بے زباں میرا عنادل کے ترنم سے الگ ہے زمزمہ اپنا مگر کرتی ہے حرماں کی تجلی امتحان میرا مدامم مست می دار و شرابِ صد طپید نہا خرابم می کند در دستِ حسرت صد و دید نہا ’’حیاتِ طیب ‘‘کے بابَ اوّل میں سفر وادیٔ کشمیر میں حکیم الاسلامؒ کے منظوم سفرنامہ کے چند اقتباسات پیش کئے گئے ہیں ، ذیل میں اُسی سفرنامہ کے چندمفید اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں ۔اہل کشمیر ’’کشمیری وطن میں بے وطن‘‘ مالک ہیں اس کے آہ کہ تشویش کا شکار ضیق دروں سے زار ونزار اور دل فگار محروم ہے وطن سے مگر مالک وطن محروم ہے بہار سے خود مالک چمن ان خوبیوں پہ کیوں ہیں وہ دلگیر ودل نزار؟ کیا جرم ہے کہ جس سے بنے وہ قصور وار؟ بنیاد ہے مصیبت کُل، معصیت نہیں بنیاد خوبیاں ہیں کوئی منقصت نہیں بنیاد اس کی زیب ہی خود اس چمن کی ہے خوش منظری جہاں میں اس انجمن کی ہے بنیاد یہ کہ کیوں ہے وہ جنت نشاں زمین؟ بنیاد یہ کہ اس کے مناظر ہیں کیوں حسین؟ بنیاد یہ کہ کیوں ہے جمالوں میں وہ فرید؟ بنیاد یہ کہ کیوں ہے ممالک کی وہ کلید؟ ہر بوالہوس کی اس لئے پڑی ہی تھی نظر پھنسنا ہی تھا اسے بھی بلا میں کمر کمر کشمیر خود سے گو اک عروس حسین ہے خطّوں میں مثل چہرۂ ماہ مبین ہے پر اس کے حق میں حسن ہی یہ بن گیا بلا شکوہ کرے تو کس سے وہ کس کا کرے گلا کشمیر خود نہیں ہے اس آفت کا ذمہ دار وہ عاشقوں کے تیر رقابت کا ہے شکار عاشق ملے مگر ہیں وہ خود غرض وبے وقار محبوب بھی ہے جن سے ستم دیدۂ وفاصلہ سے وفگار یہ عشق تابہ زانو ہے آگے نہیں ہے کچھ شہوت ہے نفس کی یہ محبت نہیں ہے کچھ