حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
حدودِ مقررہ میں استعمال کرنے کامشورہ ہے، جس طرح قرآن حکیم میں فکرو تدبر اگر بمقابلہ نص ہو تو یہ ابلیسی قیاس ہے اور اگر اس کی مرادات ماثورہ کے دائرہ میں رہ کر ہو تو وہ علومِ قرآنی میں وسعت کی دلیل ہے، جس سے عجائبات قرآنی و اشگاف ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی صحابہؓ کے قول و عمل اور ان کے مذاق کے دائرہ میں رہکر عقل کو استعمال کیا جائے تو یہ عقل کی عبادت بھی ہے اور علوم میں اضافہ بھی ہے اور اس کے معنی صحابہؓ کے معیار حق ہونے کے ہیں ۔ ورنہ خود فکری اور خود نظری وہی زلۃ ہے کہ پھر آدمی کا سنبھلے رہنا اور فرقہ ناجیہ کی حدود کو قائم رکھنا عرف شریعت میں ناممکن ہے، ورنہ صحابہ کو معیار نہ بنایا جاتا۔ گو حقیقی معیار ذات بابرکات نبوی ہے مگر آپ کی معیاریت کا تعارف سوائے صحابہؓ کی زندگی کو سامنے رکھنے کے ممکن نہیں ہے جب کہ آپ کی سنتیں صحابہؓ میں ہی اول آئیں اور ان کے ذریعہ مختلف ممالک میں ہی پہنچنے اور وہاں کے مختلف حوادثات دیکھنے سے انہوں نے ان سنتوں کومختلف رنگوں سے کس کس طرح نمایاں کیا ہے؟جس سے ان سنن مبارکہ کے الوان نمایاں ہوئے اور امت کے حق میں توسع کی صورتیں پیدا ہوئیں تو انہیں کے ذوق کے دائرہ میں رہ کر عقل صافی کو بھی کام کرنے کا موقع ملا اور ملتا رہے گا، اس لئے یہ اتباع عقل کو منجمد نہیں کرے گا بلکہ اسے دوڑنے کے لئے میدان فراہم کرے گا ۔اولیاء کرام ایک جماعت اولیاء کرام کی ہے، سب جانتے ہیں مگر ان کے تئیں اہل ایمان کا رویہ کیا ہونا چاہئے؟ اور ان کی عظمت،مرتبہ و مقام کے مناسب کون سا طریقہ مناسب سمجھا گیاہے، ذرا اس کو بھی دیکھئے: فرمایا : ’’اولیاء کرام کی محبت و عظمت کو علامت ایمان جانیں ، ان کی قبور کی زیارت کو باعث خیرو برکت سمجھیں ، وہاں کی حاضری حدود شریعت میں کریں ۔‘‘علم علم کیا ہے؟ علماء اورمحققین کی زبان میں اعتقادِ جازم کا نام علم ہے،جس میں قلب اور عقل دونوں کا امتزاج ہوتا ہے۔ خالی عقل گمراہی کا سبب ہے۔ اگر وحی کی روشنی اس کو میسر آجائے اور معرفت قلب بھی تو سبحان اللہ ورنہ ایسا علم جس کا دارومدار خالص عقلیات، حاسّہ اور حواس پر ہو کھلی ہوئی گمراہی ہے۔ ذیل میں حکیم الاسلامؒکی روح پرور تجزیہ کے تناظرمیں ملاحظہ کیجئے: فرمایا : ’’علم وہ ایک علم الٰہی ہے، بقیہ سب حس و احساس کے دائرہ کی چیزیں ہیں ، علم یا خبر صادق