حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 1 |
یات طیب |
|
پس اس کا خلاصہ واضح الفاظ میں یہ ہے کہ اُدْعُ کی دعوت ہر ممکن شان، ہر ممکن حال، ہر ممکن زمان اور ہر ممکن مکان میں دی جائے اور اُسے کسی خطہ ٔزمین یا وطن یا کسی خاص وقت یا خاص تقدیر کے ساتھ مقید نہ کیا جائے ،ورنہ فعل کا اطلاق باطل ہوجائے گا جو اس آیت کا مفاد ہے۔ ظاہر ہے کہ اسی کا نام بین الاقوامیت اور عالمیت ہے کہ شئے ہروطن، ہر خطہ اور ہر قوم میں پہنچی ہوئی ہو۔ اس لئے اسلام کی دعوت وتبلیغ کا عالمی ہونا خواہ بلحاظِ وطن ہو یا بلحاظِ وقت، بلحاظِ قومیت ہو یا بلحاظ ِرنگ ونسل، بلحاظِ احوال ہو یا بلحاظِ کیفیات وشئون (جیسے تحریری تبلیغ بصورتِ تصنیف یا تقریری تبلیغ بصورتِ خطاب ، یااشاراتی تبلیغ بذریعہ ٔہیئت وغیرہ) اسی آیت ِدعوت کے کلمہ ٔاُدْعُ کے اطلاق سے ثابت ہوگیا اور وہ یہ ہے کہ آیت میں جب اسلام کو بنام سبیلِ رب مدعو الیہ (دعوتی پروگرام) ٹھہرا کر اس کی طرف اُدْعُ سے دعوت دینے کا امر کیا تو اس کا مفعول ذکر نہیں کیا کہ کن کو دعوت دو اور یہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ عربیت کے قواعد کے مطابق ایسے مواقع میں مفعول کا ذکر نہ کیا جانا اسکے عام ہونیکی دلیل ہوتا ہے۔ حاصل یہ نکلا کہ سبیلِ رب کی دعوت ہر اس شخص کو دو جس میں فہمِ خطاب کا مادہ ہو، یعنی ہر ایک عاقل بالغ انسان کو تبلیغ کرو اور ظاہر ہے کہ دعوتِ عام دینا اور ساری دنیا کو اس دعوت کا مدعو ٹھہرا دینا جب ہی ممکن ہے کہ خود دعوتی پروگرام میں بھی عموم و ہمہ گیری کی صلاحیت ہو ،ورنہ امر ِ عام عبث ٹھہر جائے گاجو کلامِ الٰہی میں محال ہے۔ اس لئے عمومِ دعوت اور عمومِ مدعوین کا مقتضاء قدرتی طور پر عمومِ مدعو الیہ ہوتا ہے، یعنی دعوتی پروگرام بھی بذاتِ خود عالمگیری کی شان رکھتا ہو، اس لئے اسلام کا تبلیغی ہونا، جامع ہونا اور اجتماعی ہونا اسی آیت کے اقتضا ء سے ثابت ہو جاتا ہے۔(۸۱) لفظ ’’اُدْعُ‘‘ سے کیا بلیغ نکات اخذ کئے ہیں ، اقتباسِ بالا کے مابعد کے اقتباسات کو ذرا غور سے پڑھئے۔تبلیغی کلام کی فصاحت و بلاغت چنانچہ اس کلیہ کا ایک فرد یہ ہے کہ مبلّغ اپنے کلام کو فصاحت و بلاغت سے آراستہ کرے خواہ وہ حکمت سے کام لے یا موعظت اور مجادلہ کے میدان میں آئے ۔بہر حال بے تکلفانہ انداز سے شستہ کلامی، فصاحت ِلسانی اور بلاغت بیانی اس کا خاص شعار ہونا چاہیے تاکہ مخاطب صحیح عنوان سے صحیح مقاصد ہی اخذ کر سکے۔ اگر کلام میں پیچیدگی، گنجلک اور بے ترتیبی ہو یا کلام ان محاورات کے مطابق نہ ہو جس کے اہلِ لسان خوگر ہوں تو مخاطب صحیح اثر قبول نہ کر سکیں گے اور کلام رائیگاں چلا جائے گا۔ اس لئے کلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ مقتضائے حال کے مطابق ہو، زمانہ اور وقت کی زبان میں ہو اور